Language:

مولانا غلام غوث ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ

             مولانا غلام غوث ہزارویؒ ایک جید عالم دین، مجاہد ختم نبوت اور معروف سیاسی لیڈر تھے۔ ان کی پوری زندگی مسلسل جدوجہد سے مزین ہے۔ ایک دفعہ مولانا غلام غوث ہزارویؒ کا اکلوتا بیٹا زین العابدین بیمار ہوا۔ مولانا گھر پر تھے، اس کی بیماری شدت اختیار کرتی گئی۔ حتیٰ کہ اس کی زندگی سے مایوسی کے آثار ظاہر ہو گئے۔ اس دن مولانا نے مشہور قادیانی مبلغ اللہ دتہ جالندھری سے ہزارہ کے علاقہ میں مناظرہ کے لیے جانا تھا۔ مولانا اپنے اکلوتے جواں سال صاحبزادے کو اس حالت میں چھوڑ کر روانہ ہو گئے۔ ابھی اڈہ پر ہی پہنچے تھے کہ پیچھے سے آدمی دوڑتا ہوا آیا اور پیغام دیا کہ بچے کا انتقال ہو گیا۔ آپ نے ٹھنڈا سانس لیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا اور اس آدمی سے کہا کہ گھرجا کر غسل دیں، کفن پہنائیں، جنازہ پڑھیں اور دفن کر دیں، میرا اس مناظرہ کے لیے جانا ضروری ہے۔ جنازہ پڑھنا فرض کفایہ ہے اور مقرر شدہ مناظرہ کرنا میرے لیے فرض عین ہے، ورنہ کئی آدمیوں کے گمراہ ہونے کا خطرہ ہے، میں جا رہا ہوں۔ یہ کہہ کر استقامت و ایثار کے بے تاج بادشاہ غلام غوث ہزاروی بس پر سوار ہو کر مناظرہ کے لیے مقررہ مقام کی طرف روانہ ہو گئے۔ قارئین کرام! ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ آیا ہم میں سے کوئی آدمی ایسی مثال قائم کر سکتا ہے۔ اللہ رب العزت ان پر کروڑ رحمتیں نازل فرمائے۔

            تحریک ختم نبوت 1953ء کے دوران میں مولانا غلام غوث ہزارویؒ اپنے ایک خادم کے ساتھ بھیس بدل کر خانقاہ سراجیہ آئے۔ اس وقت خانقاہ سراجیہ کے سجادہ نشین مولانا محمد عبداللہ ثانی  ؒ تھے۔ انھوں نے اپنے ایک مرید، جو بھلوال ضلع سرگودھا سے تعلق رکھتے تھے، ان کے ایک دور دراز کھیتوں کے ڈیرہ پر مولانا کی رہائش کا انتظام کر دیا۔ پولیس اور فوج آپ کی گرفتاری کے لیے جگہ جگہ چھاپے مار رہی تھی۔ مولانا فرماتے ہیں کہ ’’مجھے سخت پریشانی لاحق تھی اور اپنی حالت پر سوچتا تھا اگر اس حالت میں گولی سے مارا جاتا ہوں تو یہ بزدلی کی موت ہے اور اگر گرفتاری کے لیے ظاہر ہوتا ہوں تو مرکز کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔ یہ پریشانی تین دن تک رہی اور تیسرے دن مجھے کچھ نیند اور کچھ بیداری کی حالت میں حضورِ انورصلی اللہ علیہ وسلم کی زیارتِ مبارک نصیب ہوئی اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے میری پیشانی پر ہاتھ رکھ کر فرمایا:

’’غلام غوثؒ! تم نے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلمکی عزت کے لیے قربانی دی ہے، پریشان مت ہو، کوئی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔‘‘

جب میری آنکھ کھلی تو طبیعت میں مسرت کی لہر دوڑ گئی اور کامل اطمینان پیدا ہو گیا۔ بعد میں بہت سی تکالیف بھی آئیں لیکن مجھے قطعاً پریشانی نہیں ہوئی اور اس کے بعد ہی میں فوج اور پولیس کو جُل دے کر نکل گیا اور ایسے اوقات بھی آئے کہ میرے پیچھے فوج اور پولیس والے نماز پڑھتے رہے لیکن پہچان نہ سکے۔ یہ سب حفاظت الٰہی اور بشارتِ نبویصلی اللہ علیہ وسلم کا نتیجہ تھا۔