Language:

محمدی بیگم

تاریخ میں جھوٹے نبیوں کے حالاتِ زندگی پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ عیش و عشرت اور غایت درجہ بے لگام نفسانی خواہشات کے غلام تھے۔ ان کی سب سے بڑی کمزوری ان کی تعیش پسندی تھی۔ وہ اخلاقی قدروں کے سرے سے قائل نہ تھے۔ ان کے حلقۂ ارادت میں آنے والی خوبصورت اور نوجوان لڑکیاں ایک ایک کر کے ان کی شیطانی ہوس کے گھاٹ اترتی رہیں، لیکن ان کے پیرو کار یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی ان کی اندھی محبت اور عقیدت میں ان کی مدح کے گیت الاپتے رہے۔

جھوٹا مدعیِ نبوت آنجہانی مرزا قادیانی بھی اپنے پیش روئوں کی طرح اسی کردار کا مالک تھا۔ وہ دن کو غیر محرم عورتوں کے جھرمٹ میں بیٹھا خوشی سے پھولے نہ سماتا تو رات کو خواب میں بھی ایسی ہی رنگینیوں اور سنگینیوں کا نظارہ کرتا۔ مرزا قادیانی کی پہلی شادی اس کے ماموں مرزا جمعیت بیگ کی لڑکی حرمت بی بی سے ہوئی جس سے دو لڑکے فضل احمد اور سلطان احمد پیدا ہوئے۔ بعدازاں انگریز کی حمایت اور جہاد کی مخالفت کے عوض انگریز سرکار اس پر بہت مہربان ہو گئی۔ اس کے دن پھر گئے اور وہ لاکھوں میں کھیلنے لگا۔ دولت کی فراوانی نے اسے شراب و کباب کا رسیا بنا دیا جس سے اس کی صحت خراب رہنے لگی۔ لیکن اس کے باوجود اس نے دہلی کے ایک آزاد خیال گھرانے کی ایک 16 سالہ الھڑ خاتون نصرت جہاں سے شادی رچائی۔ حالانکہ بقول مرزا قادیانی اُن دنوں اس کی حالت مردمی کالعدم تھی۔ حکیم نور الدین کے کشتوں نے اسے ازسرنو عارضی طور پر جوان کر دیا۔ نصرت جہاں سے اس کے کئی بچے پیدا ہوئے۔ دوسری شادی کے تقریباً 2، 4 سال بعد اس کی نظر خاندان کی ایک نوخیز اور نہایت خوبصورت لڑکی ’’محمدی بیگم‘‘ پر پڑی تو وہ دل پر قابو نہ رکھ سکا۔ ان کی جنسی ہوس کی رال ٹپکنے لگی۔ وہ اپنے خوابوں اور خیالات میں محمدی بیگم کا تصور لا کر تنہائی میں نجانے کیا کیا احمقانہ حرکات کرتا۔ انہی دنوں مرزا قادیانی کو الہام ہوا:

(1)        ’’بسترِ عیش۔‘‘                                                                        (تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات طبع چہارم صفحہ 416 از مرزا قادیانی)

پھر اپنا ایک رنگین و سنگین خواب اس طرح بیان کرتا ہے:

(2)        ’’مطابق 30 ذی الحجہ روز شنبہ۔ آج میں نے بوقت صبح صادق چار بجے خواب میں دیکھا کہ ایک حویلی ہے۔ اس میں میری بیوی والدۂ محمود اور ایک عورت بیٹھی ہے۔ تب میں نے ایک مشک سفید رنگ میں پانی بھرا ہے اور اس مشک کو اٹھا کر لایا ہوں اور وہ پانی لا کر ایک گھڑے میں ڈال دیا ہے۔ میں پانی کو ڈال چکا تھا کہ وہ عورت جو بیٹھی ہوئی تھی، یکایک سرخ اور خوش رنگ لباس پہنے ہوئے میرے پاس آ گئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک جوان عورت ہے، پیروں سے سر تک سرخ لباس پہنے ہوئے۔ شاید جالی کا کپڑا ہے۔ میں نے دل میں خیال کیا کہ وہی عورت ہے جس کے لیے اشتہار دیے تھے۔ لیکن اس کی صورت میری بیوی کی صورت معلوم ہوئی۔ گویا اس نے کہا، یا دل میں کہا کہ میں آ گئی ہوں۔ میں نے کہا یا اللہ آ جاوے۔  اور پھر وہ عورت مجھ سے بغلگیر ہوئی۔ اس کے بغلگیر ہوتے ہی میری آنکھ کھل گئی۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔‘‘

                                                                                                                                                                                            (تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات طبع چہارم صفحہ 159 از مرزا قادیانی)

 ایک اور خواب بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:

(3)        ’’رؤیا۔ دیکھا کہ پندرہ سولہ نوجوان عورتیں خوبصورت اور نہایت خوش لباس پہنے ہوئے میرے سامنے آئی ہیں۔ میں نے اس خیال سے کہ یہ جوان عورتیں ہیں، منہ ان سے پھیر لیا، اور ان سے پوچھا کہ تم کیسے آئی ہو؟ انھوں نے کہا ہم تو آپ کے پاس ہی آئی ہیں۔ پھر انھوں نے وہیں ہمارے دالان میں ڈیرے لگا دیے۔‘‘                                                                (تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات طبع چہارم صفحہ 535 از مرزا قادیانی)

ایک خواب میں دیکھتا ہے:

(4)        ’’دیکھا کہ میں ایک پیڑھی پر بیٹھا ہوں تو ایک عورت نوجوان عمدہ لباس پہنے ہوئے تیس بتیس سال کی میرے سامنے آئی اور اس نے کہا کہ میرا ارادہ اب اس گھر سے چلا جانے کا تھا۔ مگر تمھارے لیے رہ گئی ہوں۔‘‘                                                                                                                                                                                        (تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات طبع چہارم صفحہ 535 از مرزا قادیانی)

 پھر مرزا قادیانی محمدی بیگم کے عشق میں گرفتار ہو کر عشقیہ اشعار کہنے لگا۔ ملاحظہ فرمائیں:

(5)

   ’’عشق کا روگ ہے کیا پوچھتے ہو اس کی دوا

    ایسے بیمار کا مرنا ہی دوا ہوتا ہے

    کچھ مزا پایا مرے دل! ابھی کچھ پائو گے

تم بھی کہتے تھے کہ اُلفت میں مزا ہوتا ہے

………

ہائے کیوں ہجر کے الم میں پڑے

مفت بیٹھے بٹھائے غم میں پڑے

اس کے جانے سے صبر دل سے گیا

ہوش بھی ورطۂ عدم میں پڑے

………

سبب کوئی خداوندا بنا دے

کسی صورت سے وہ صورت دکھا دے

کرم فرما کے آ او میرے جانی

بہت روئے ہیں اب ہم کو ہنسا دے

کبھی نکلے گا آخر تنگ ہو کر

دلا اک بار شور و غل مچا دے

                                                                                                                        (سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ 232 از مرزا بشیر احمد ایم اے)

اس کے بعد مرزا قادیانی نے محمدی بیگم کو ’’پارسا طبع اور نیک سیرت اہلیہ‘‘ کا خطاب دے کر درج ذیل خدائی الہام بیان کیا۔ مزید کہا کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کے ہاں طے ہو چکی ہے کہ محمدی بیگم میرے نکاح میں آئے گی۔ ملاحظہ فرمائیں:

(6)        ’’شاید چار ماہ کا عرصہ ہوا کہ اس عاجز پر ظاہر کیا گیا تھا کہ ایک فرزند قوی الطاقتین، کامل الظاہر والباطن تم کو عطا کیا جائے گا۔ سو اس کا نام بشیر ہوگا۔ اب تک میرا قیاسی طور پر خیال تھا کہ شاید وہ فرزند مبارک اسی اہلیہ سے ہوگا۔ اب زیادہ تر الہام اس بات میں ہو رہے ہیں کہ عنقریب ایک اور نکاح تمھیں کرنا پڑے گا اور جنابِ الٰہی میں یہ بات قرار پا چکی ہے کہ ایک پارسا طبع اور نیک سیرت اہلیہ تمھیں عطا ہوگی۔ وہ صاحبِ اولاد ہوگی۔ اس میں تعجب کی بات یہ ہے کہ جب الہام ہوا تو ایک کشفی عالم میں چار پھل مجھ کو دیے گئے۔ تین ان میں سے تو آم کے تھے۔ مگر ایک پھل سبز رنگ بہت بڑا تھا۔ وہ اس جہان کے پھلوں سے مشابہ نہیں تھا۔ اگرچہ ابھی یہ الہامی بات نہیں۔ مگر میرے دل میں یہ پڑا ہے کہ وہ پھل جو اس جہان کے پھلوں میں سے نہیں ہے، وہی مبارک لڑکا ہے کیونکہ کچھ شک نہیں کہ پھلوں سے مراد اولاد ہے اور جبکہ ایک پارسا طبع اہلیہ کی بشارت دی گئی اور ساتھ ہی کشفی طور پر چار پھل دیے گئے، جن میں سے ایک پھل الگ وضع کا ہے تو یہی سمجھا جاتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔‘‘

                                                                                                                                                                (تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات طبع چہارم صفحہ 112، 113 از مرزا قادیانی)

قارئین کرام! آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ معلوم کر لیا جائے کہ محمدی بیگم اور اس کے خاندان کی مرزا غلام احمد قادیانی سے کیا رشتے داری تھی؟

-1         محمدی بیگم کا والد مرزا احمد بیگ، مرزا قادیانی کا ماموں زاد بھائی تھا۔

            (قارئین خود غور فرمالیں کہ ماموں زاد بھائی کی بیٹی رشتے میں مرزا قادیانی کی کیا لگتی تھی؟)

-2         محمدی بیگم کی والدہ عمر النسائ، مرزا قادیانی کی چچا زاد بہن اور مرزا امام الدین کی حقیقی ہمشیرہ تھی۔

-3         محمدی بیگم، مرزا قادیانی کی پہلی بیوی حرمت بی بی (پھجے دی ماں) کے چچا زاد بھائی کی بیٹی تھی۔

-4         محمدی بیگم، مرزا قادیانی کے لڑکے فضل احمد کی بیوی کی ماموں زاد بہن تھی۔

-5         مرزا امام الدین، مرزا قادیانی کا چچا زاد بھائی اور محمدی بیگم کا حقیقی ماموں تھا۔

-6         سلطان احمد اور فضل احمد، مرزا قادیانی کی پہلی بیوی حرمت بی بی کے بطن سے تھے۔

-7         عزت بی بی، مرزا قادیانی کے بیٹے فضل احمد کی اہلیہ اور مرزا احمد بیگ کی سگی بھانجی تھی۔

-8         مرزا علی شیر بیگ، عزت بی بی کے والد اور مرزا قادیانی کا سمدھی تھا۔

-9         عزت بی بی کی والدہ، مرزا احمد بیگ کی ہمشیرہ اور مرزا غلام احمد کی سمدھن تھی۔

-10       عزت بی بی کی والدہ یعنی فضل احمد کی ساس، محمدی بیگم کی پھوپھی تھی۔

معروف عالم دین حضرت مولانا حافظ محمد اقبال رنگونی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:

’’کسی آدمی کا شادی کے لیے کسی لڑکی کا انتخاب کرنا اور اس کے لیے پیغام دینا کوئی بُری بات نہیں ہے۔ لیکن ایک پچاس سالہ بوڑھے کا ایک کم سن بچی پر نظر رکھنا اور اس کی طلب و ہوس میں دن رات تڑپنا اس کے شریف ہونے کا پتہ نہیں دیتا۔ پھر یہ مسئلہ اس وقت اور بھی شدید ہو جاتا ہے جب اس لڑکی کا والد اپنی کسی اور مجبوری میں اس شخص کے پاس آئے اور وہ اس شخص کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اس لڑکی کو حاصل کرنے کی کوشش کرے اور طرح طرح کے لالچ اور انعام کے وعدے کرے اور پھر موت کی دھمکیوں پر اُتر آئے۔ یہ پرلے درجے کی بداخلاقی اور غنڈہ گردی ہے اور معاشرہ ایسے شخص کو بے حیا اور بدمعاش کہتا ہے۔ پھر یہ بات اس وقت اور بھی سنگین ہو جاتی ہے جب اس قسم کی اوچھی حرکتیں کرنے والا شخص مامور من اللہ ہونے کا مدعی ہو اور اس لڑکی کو پانے کی خدا کے نام سے خبر دے۔

خدا تعالیٰ کے محبوبین اور مقبولین، اخلاق و کردار کی اُس بلند دیوار پر کھڑے ہوتے ہیں جس پر خدا کے معصوم فرشتوں کو بھی رشک آتا ہے۔ مخالفین ان کے دعویٰ کی تکذیب تو کرتے ہیں لیکن کبھی ان کے اخلاق زیر بحث نہیں لاتے۔ شدید ترین مخالفین بھی اللہ کے ان محبوبین کے اعلیٰ اخلاق و کردار کو تسلیم کرتے ہیں اور انھیں امین و صادق اور عفیف مانے بغیر انھیں چارہ نہیں ہوتا۔ اس کے مقابل جو لوگ خدا کے نام پر جھوٹی آواز لگاتے ہیں، وہ افترا علی اللہ اور افتراء علی الرسول کے مجرم ہوتے ہیں۔ وہ اخلاق و کردار کے اعتبار سے اس قدر گرے ہوتے ہیں کہ کوئی مہذب معاشرہ ایسے آدمیوں کو شریف کہنا گوارا نہیں کرتا۔ وہ اول مرحلے پر ہی اپنے آپ کو اس قدر ننگا کر دیتے ہیں کہ ذرا سی سمجھ رکھنے والا انسان یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ جو شخص اس قدر بداخلاق اور بدکردار ہے، وہ مامور من اللہ تو کجا ایک شریف انسان کہلانے کے بھی قابل نہیں۔ جب ایک دھوکہ باز آدمی کو کوئی شخص صالح اور پرہیزگار نہیں کہہ سکتا تو ایسے بدکردار آدمی کو مامور من اللہ کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے؟ مولانا روم نے ایسے ہی فراڈی قسم کے لوگوں کے بارے میں یہ کہا تھا    ؎

کارِ شیطان مے کند نامش ولی

گر ولی ایں است لعنت بر ایں ولی

قادیانی، مرزا غلام احمد کو خدا کا نبی اور اس کا مامور مانتے ہیں اور مسلمانوں کو کہتے ہیں کہ اس پر ایمان لائو گے تو جنت میں جائو گے اور اسے نہ ماننے والا حرام زادہ ہے۔ اہلِ اسلام تو سرے سے ہی اسے پرلے درجے کا جھوٹا سمجھتے ہیں اور اس کے دعویٰ کی بنا پر اسے اسلام سے باہر جانتے ہیں۔ لیکن جو لوگ اُسے مانتے ہیں انھیں غور کرنا چاہیے کہ انھوں نے کس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا ہے؟

ایک مرتبہ مرزا غلام احمد کی نظر ایک کمسن لڑکی پر پڑی جو اس کے دل کو بھا گئی۔ یہ اس کے اپنے ایک قریبی رشتہ دار کی بچی تھی۔ کچھ عرصہ بعد اس بچی کے والد کو اپنی زمین کے ہبہ نامہ کے سلسلہ میں مرزا غلام احمد کے پاس آنا پڑا۔ مرزا غلام احمد نے مختلف بہانوں کے ذریعہ اسے ٹالنے کا کھیل کھیلا مگر جب وہ کسی طرح بھی نہ ٹلا تو مرزا قادیانی نے کہا کہ میں ایک شرط پر تمہارا یہ کام کرنے کے لیے تیار ہوں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ کو یہ الہام ہوا کہ تمہارا یہ کام اس شرط پر ہو سکتا ہے کہ تم اپنی لڑکی کا نکاح مجھ سے کر دو۔ یہ شخص احمد بیگ تھا اور یہ بچی محمدی بیگم تھی۔ احمد بیگ نے جب مرزا غلام احمد کی یہ بات سنی تو اُس کے ہوش اُڑ گئے کہ ایک ایسا شخص جو مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، اس عمر میں ایک کام کے لیے میری کم سن بچی مانگ رہا ہے۔ چنانچہ اس نے مرزا غلام احمد کی یہ شرط ماننے سے انکار کر دیا اور بغیر کام کرائے واپس چلا آیا۔ مرزا غلام احمد نے احمد بیگ کو مختلف ذرائع سے سمجھانے اور منانے کی کوشش کی مگر غیرت مند باپ کسی طرح بھی اپنی بچی کا نکاح مرزا قادیانی سے کرنے کے لیے تیار نہ ہوا۔ مرزا قادیانی نے اس بچی کو پانے کے لیے خدا کی وحی آنے کی خبر دی اور احمد بیگ کے خاندان کو رحمتوں اور برکتوں کے ملنے کی خوشخبری دی۔‘‘

(اہم پیشگوئیاں اور ان کا جائزہ از حافظ محمد اقبال رنگونی)

مرزا قادیانی لکھتا ہے: (قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ مرزا قادیانی کی یہ عبارت توجہ سے پڑھیں۔ شکریہ)!

(7)        ’’یہ لوگ جو مجھ کو میرے دعویٰ الہام میں مکار اور دروغ گو خیال کرتے تھے اور اسلام اور قرآن شریف پر طرح طرح کے اعتراض کرتے تھے اور مجھ سے کوئی نشان آسمانی مانگتے تھے تو اس وجہ سے کئی دفعہ ان کے لیے دعا بھی کی گئی تھی۔ سو وہ دعا قبول ہو کر خدا تعالیٰ نے یہ تقریب قائم کی کہ والد اس دختر کا ایک اپنے ضروری کام کے لیے ہماری طرف ملتجی ہوا۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ نامبردہ (احمد بیگ) کی ایک ہمشیرہ ہمارے ایک چچا زاد بھائی غلام حسین نام کو بیاہی گئی تھی۔ غلام حسین عرصہ پچیس سال سے کہیں چلا گیا ہے اور مفقود الخبر ہے۔ اس کی زمین ملکیت جس کا ہمیں حق پہنچتا ہے، نامبردہ (احمد بیگ) کی ہمشیرہ کے نام کاغذاتِ سرکاری میں درج کرا دی گئی تھی۔ اب حال کے بندوبست میں جو ضلع گورداسپور میں جاری ہے، نامبردہ یعنی ہمارے خط کے مکتوب الیہ (احمد بیگ) نے اپنی ہمشیرہ کی اجازت سے یہ چاہا کہ وہ زمین جو چار ہزار یا پانچ ہزار روپیہ کی قیمت کی ہے، اپنے بیٹے محمد بیگ کے نام بطور ہبہ منتقل کرا دیں چنانچہ ان کی ہمشیرہ کی طرف سے یہ ہبہ نامہ لکھا گیا۔ چونکہ وہ ہبہ نامہ بجز ہماری رضامندی کے بیکار تھا، اس لیے مکتوب الیہ (احمد بیگ) نے بتمامتر عجز و انکسار ہماری طرف رجوع کیا، تا ہم اس ہبہ پر راضی ہو کر اس ہبہ نامہ پر دستخط کر دیں۔ اور قریب تھا کہ دستخط کر دیتے لیکن یہ خیال آیا کہ جیسا کہ ایک مدت سے بڑے بڑے کاموں میں ہماری عادت ہے جنابِ الٰہی میں استخارہ کر لینا چاہیے۔ سو یہی جواب مکتوب الیہ کو دیا گیا۔ پھر مکتوب الیہ کے متواتر اصرار سے استخارہ کیا گیا۔ وہ استخارہ کیا تھا گویا آسمانی نشان کی درخواست کا وقت آ پہنچا تھا جس کو خدائے تعالیٰ نے اس پیرایہ میں ظاہر کر دیا۔

اس خدائے قادر حکیم مطلق نے مجھے فرمایا کہ اس شخص (احمد بیگ) کی دختر کلاں (محمدی بیگم) کے نکاح کے لیے سلسلہ جنبانی کر اور ان کو کہہ دے کہ تمام سلوک اور مروت تم سے اسی شرط سے کیا جائے گا اور یہ نکاح تمھارے لیے موجب برکت اور ایک رحمت کا نشان ہوگا اور ان تمام برکتوں اور رحمتوں سے حصہ پائو گے جو اشتہار 20 فروری 1888ء میں درج ہیں لیکن اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی برا ہوگا اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی، وہ روزِ نکاح سے اڑھائی سال تک اور ایسا ہی والد اس دختر کا تین سال تک فوت ہو جائے گا اور ان کے گھر پر تفرقہ اور تنگی اور مصیبت پڑے گی اور درمیانی زمانہ میں بھی اس دختر کے لیے کئی کراہت اورغم کے امر پیش آئیں گے۔

پھر ان دنوں میں جو زیادہ تصریح اور تفصیل کے لیے بار بار توجہ کی گئی تو معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ نے یہ مقرر کر رکھا ہے کہ وہ مکتوب الیہ کی دخترِ کلاں (محمدی بیگم) کو جس کی نسبت درخواست کی گئی تھی ہر ایک روک دور کرنے کے بعد انجام کار اسی عاجز کے نکاح میں لاوے گا اور بے دینوں کو مسلمان بناوے گا اور گمراہوں میں ہدایت پھیلا دے گا۔ چنانچہ عربی الہام اس بارے میں یہ ہے: کذبوا بٰایٰتنا وکانوا بھا یستھزؤن فسیکفیکہم اللّٰہ ویردھا الیک لا تبدیل لکلمات اللّٰہ ان ربک فعال لما یرید۔ انت معی وانا معک عسٰی ان یبعثک ربک مقامًا محمودًا۔ یعنی انھوں نے ہمارے نشانوں کو جھٹلایا اور وہ پہلے سے ہنسی کر رہے تھے سو خدا تعالیٰ ان سب کے تدارک کے لیے جو اس کام کو روک رہے ہیں، تمہارا مددگار ہوگا اور انجام کار اُس کی اِس لڑکی کو تمہاری طرف واپس لائے گا۔ کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے۔ تیرا رب وہ قادر ہے کہ جو کچھ چاہے وہی ہو جاتا ہے۔ تُو میرے ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں اور عنقریب وہ مقام تجھے ملے گا جس میں تیری تعریف کی جائے گی یعنی گو اوّل میں احمق اور نادان لوگ بدباطنی اور بدظنی کی راہ سے بدگوئی کرتے ہیں اور نالائق باتیں منہ پر لاتے ہیں لیکن آخر خدا تعالیٰ کی مدد کو دیکھ کر شرمندہ ہوں گے اور سچائی کے کھلنے سے چاروں طرف سے تعریف ہوگی۔‘‘

(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 285 تا 287 مندرجہ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 285 تا 287 از مرزا قادیانی)

مگر کسی قدر افسوسناک بات ہے کہ مرز قادیانی کے ’’خدا‘‘ نے اسے ککھ سے ہولا کردیا۔ ایک رشتہ دار عورت سے نکاح ایسی ناممکن بات نہیں ہوتی مگر ہر طرح کے پاپڑ بیلنے کے باجود مرزا قادیانی، محمدی بیگم کو حبالۂ عقد میں لانے سے قاصر رہا۔ جس ’’خدا‘‘ نے مرزا قادیانی کی ایسی جگ ہنسائی کرائی، اس پر بھروسہ کرنا پرلے درجے کی نادانی ہے یا نہیں؟ اے کاش! مرزا قادیانی کا سچے خدا سے زندہ تعلق ہوتا تو وہ یوں عالم میں رسوا نہ ہوتا۔

 مرزا قادیانی کا بیٹا مرزا بشیر احمد ایم اے اپنے والد کے مؤقف کی تصدیق کرتے ہوئے لکھتا ہے:

(8)        ’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح کی حقیقی ہمشیرہ مراد بی بی، مرزا محمد بیگ ہوشیارپوری کے ساتھ بیاہی گئی تھیں۔ مگر مرزا محمد بیگ جلد فوت ہو گئے اور ہماری پھوپھی کو باقی ایام زندگی بیوگی کی حالت میں گزارنے پڑے۔ ہماری پھوپھی صاحبِ رویا و کشف تھیں۔ مرزا محمد بیگ مذکور کے چھوٹے بھائی مرزا احمد بیگ ہوشیارپوری کے ساتھ حضرت مسیح موعود کے چچیرے بھائیوں یعنی مرزا نظام الدین وغیرہ کی حقیقی بہن عمر النساء بیاہی گئی تھیں، ان کے بطن سے محمدی بیگم پیدا ہوئی۔ مرزا نظام الدین و مرزا امام الدین وغیرہ پرلے درجہ کے بے دین اور دہریہ طبع لوگ تھے اور مرزا احمد بیگ مذکور ان کے سخت زیر اثر تھا اور انھیں کے رنگ میں رنگین رہتا۔ یہ لوگ ایک عرصہ سے حضرت مسیح موعود سے نشانِ آسمانی کے طالب رہتے تھے کیونکہ اسلامی طریق سے انحراف اور عناد رکھتے تھے اور والدِ محمدی بیگم یعنی مرزا احمد بیگ ان کے اشارہ پر چلتا تھا۔ اب واقعہ یوں ہوا کہ حضرت مسیح موعود کا ایک اور چچا زاد بھائی مرزا غلام حسین تھا جو عرصہ سے مفقود الخبر ہو چکا تھا، اور اس کی جائداد اس کی بیوی امام بی بی کے نام ہو چکی تھی۔ یہ امام بی بی مرزا احمد بیگ مذکور کی بہن تھی۔ اب مرزا احمد بیگ کو یہ خواہش پیدا ہوئی کہ مسمات امام بی بی اپنی جائداد اس کے لڑکے مرزا محمد بیگ برادر کلاں محمدی بیگم کے نام ہبہ کر دے۔ لیکن قانوناً امام بی بی اس جائداد کا ہبہ بنام محمد بیگ مذکور بلا رضا مندی حضرت مسیحِ موعود نہ کر سکتی تھی۔ اس لیے مرزا احمد بیگ بتمام عجز و انکساری حضرت مسیح موعود کی طرف ملتجی ہوا کہ آپ ہبہ نامہ پر دستخط کر دیں۔ چنانچہ حضرت صاحب قریباً تیار ہو گئے۔ لیکن پھر اس خیال سے رک گئے کہ دریں بارہ مسنون استخارہ کر لینا ضروری ہے۔ چنانچہ آپ نے مرزا احمد بیگ کو یہی جواب دیا کہ میں استخارہ کرنے کے بعد، دستخط کرنے ہوں گے تو کر دوں گا۔ چنانچہ اس کے بعد مرزا احمد بیگ کے متواتر اصرار سے استخارہ کیا گیا۔ وہ استخارہ کیا تھا، گویا آسمانی نشان کے دکھانے کا وقت آن پہنچا تھا جس کو خدا تعالیٰ نے اس پیرایہ میں ظاہر کر دیا۔ چنانچہ استخارہ کے جواب میں خداوند تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود سے یہ فرمایا کہ ’’اس شخص کی دخترِ کلاں کے نکاح کے لیے سلسلہ جنبانی کر اور ان کو کہہ دے کہ تمام سلوک اور مروت تم سے اسی شرط سے کیا جائے گا اور یہ نکاح تمھارے لیے موجبِ برکت اور ایک رحمت کا نشان ہوگا، اور ان تمام برکتوں اور رحمتوں سے حصہ پائو گے جو اشتہار 20 فروری 1886ء میں درج ہیں۔ لیکن اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی برا ہوگا اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی وہ روزِ نکاح سے اڑھائی سال تک اور ایسا ہی والد اس دختر کا تین سال تک فوت ہو جائے گا، اور ان کے گھر پر تفرقہ اور تنگی اور مصیبت پڑے گی، اور درمیانی زمانہ میں بھی اس دختر کے لیے کئی کراہت اور غم کے امر پیش آئیں گے۔‘‘ اس وحی الہامی کے ساتھ حضرت مسیحِ موعود نے نوٹ دیا کہ ’’تین سال تک فوت ہونا روز نکاح کے حساب سے ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ کوئی واقعہ اور حادثہ اس سے پہلے نہ آئے بلکہ مکاشفات کے رُو سے مکتوب الیہ (یعنی مرزا احمد بیگ) کا زمانۂ حوادث جن کا انجام معلوم نہیں، نزدیک پایا جاتا ہے۔ واللہ اعلم۔‘‘ جب استخارہ کے جواب میں یہ وحی ہوئی تو حضرت مسیح موعود نے اسے شائع نہیں فرمایا بلکہ صرف ایک پرائیویٹ خط کے ذریعہ سے والدِ محمدی بیگم کو اس سے اطلاع دے دی کیونکہ آپ کو یقین تھا کہ وہ اس کی اشاعت سے رنجیدہ ہوگا۔ لہٰذا آپ نے اشاعت کے لیے مصلحتاً دوسرے وقت کی انتظار کی۔ لیکن جلد ہی خود لڑکی کے ماموں مرزا نظام الدین نے شدتِ غضب میں آ کر اس مضمون کو آپ ہی شائع کر دیا اور علاوہ زبانی اشاعت کے اخباروں میں بھی اس خط کی خوب اشاعت کی۔ تب پھر حضرت مسیحِ موعود کو بھی اظہار کا عمدہ موقعہ مل گیا۔‘‘

(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ 114، 115 از مرزا بشیر احمد ایم اے)

مرزا قادیانی نے محمدی بیگم سے نکاح کے سلسلہ میں ’’اللہ تعالیٰ سے بشارت پا کر‘‘ اپنے ایک اشتہار میں لکھا:

(9)        ’’پھر خدائے کریم جل شانہ نے مجھے بشارت دے کر کہا کہ تیرا گھر برکت سے بھرے گا۔ اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا، تیری نسل بہت ہوگی اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھائوں گا اور برکت دوں گا مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی اور ہر ایک شاخ تیرے جدی بھائیوں کی کاٹی جائے گی اور وہ جلد لاولد رہ کر ختم ہو جائے گی۔ اگر وہ توبہ نہ کریں گے تو خدا اُن پر بلا پر بلا نازل کرے گا۔ یہاں تک کہ وہ نابود ہو جائیں گے۔ ان کے گھر بیوائوں سے بھر جائیں گے اور ان کی دیواروں پر غضب نازل ہوگا۔ لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدا رحم کے ساتھ رجوع کرے گا۔ خدا تیری برکتیں اردگرد پھیلائے گا اور ایک اُجڑا ہوا گھر تجھ سے آباد کرے گا۔ ]حاشیہ[ یہ ایک پیشگوئی کی طرف اشارہ ہے جو دہم جولائی 1888ء کے اشتہار میں شائع ہو چکی، جس کا ماحصل یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس عاجز کے مخالف اور منکر رشتہ داروں کے حق میں نشان کے طور پر یہ پیشگوئی ظاہر کی ہے کہ ان میں سے جو ایک شخص احمد بیگ نام ہے، اگر وہ اپنی بڑی لڑکی اس عاجز کو نہیں دے گا تو تین برس کے عرصہ تک بلکہ اس سے قریب فوت ہو جائے گا اور وہ جو نکاح کرے گا وہ روزِ نکاح سے اڑھائی برس کے عرصہ میں فوت ہوگا۔ اور آخر وہ عورت اس عاجز کی بیویوں میں داخل ہوگی۔ سو اس جگہ اجڑے ہوئے گھر سے وہ اُجڑا ہوا گھر مراد ہے۔‘‘                                                                                            (مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 96 طبع جدید از مرزا قادیانی)

 اس اشتہار پر تبصرہ مرزا قادیانی کی زبانی ملاحظہ فرمائیں:

(10)      ’’عاجز نے 20 فروری 1886ء کے اشتہار میں یہ پیشگوئی خدا تعالیٰ کی طرف سے بیان کی تھی کہ اس نے مجھے بشارت دی ہے کہ بعض بابرکت عورتیں اس اشتہار کے بعد بھی تیرے نکاح میں آئیں گی اور ان سے اولاد پیدا ہوگی۔ اس پیشگوئی پر منشی صاحب فرماتے ہیں کہ الہام کئی قسم کا ہوتا ہے نیکوں کو نیک باتوں کا اور زانیوں کو عورتوں کا۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 113 طبع جدید از مرزا قادیانی)

 مرزا قادیانی اپنی اور محمدی بیگم کی عمر کے بارے میں لکھتا ہے:

(11)      ’’کانت بنتہ ھذہ المخطوبۃ جاریۃ حدیثۃ السن عذراء وکنت حینئدٍ جاوزت الخمسین۔ (ترجمہ) محمدی بیگم ابھی نوخیز لڑکی ہے اور میری عمر پچاس سال سے زائد ہے۔‘‘

(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 574 مندرجہ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 574 از مرزا قادیانی)

قادیانیوں کو مرزا قادیانی کی باتوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ وہ تذبذب کا شکار تھے کہ کیا واقعی اللہ تعالیٰ نے مرزا قادیانی کو محمدی بیگم سے نکاح کے سلسلہ میں یقین دہانیاں کرائی ہیں۔ اس پر مرزا قادیانی نے کہا:

(12)      ’’یہ بھی الہام (ہوا) ہے ویسئلونک احق ھو قل ای وربی انہ لحقّ وما انتم بمعجزین۔ زوجنا کھا لا مبدل لکلماتی۔ وان یروا اٰیٰۃ یعرضوا و یقولوا سحر مستمر۔ اور (لوگ) تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا (محمدی بیگم سے نکاح والی) یہ بات سچ ہے؟ کہہ ہاں! مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ یہ سچ ہے اور تم اس بات کو وقوع میں آنے سے روک نہیں سکتے۔ ہم نے خود اس (محمدی بیگم) سے تیرا عقد نکاح باندھ دیا ہے۔ میری باتوں کو کوئی بدلا نہیں سکتا اور نشان دیکھ کر منہ پھیر لیں گے اور قبول نہیں کریں گے اور کہیں گے کہ یہ کوئی پکا فریب یا پکا جادو ہے۔‘‘

(آسمانی فیصلہ صفحہ 40 مندرجہ روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 350 از مرزا قادیانی)

مرزا قادیانی نے مزید کہا:

(13)      ’’خدائے تعالیٰ نے پیشگوئی کے طور  پر اس عاجز پر ظاہر فرمایا کہ مرزا احمد بیگ ولد مرزا گاماں بیگ ہوشیارپوری کی دختر کلاں انجام کار تمھارے نکاح میں آئے گی اور وہ لوگ بہت عداوت کریں گے اور بہت مانع آئیں گے اور کوشش کریں گے کہ ایسا نہ ہو لیکن آخرکار ایسا ہی ہوگا۔ اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ ہر طرح سے اس کو تمہاری طرف لائے گا باکرہ ہونے کی حالت میں یا بیوہ کر کے اور ہر ایک روک کو درمیان سے اٹھاوے گا اور اس کام کو ضرور پورا کرے گا۔ کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔‘‘

(ازالہ اوہام صفحہ 305 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 305 از مرزا قادیانی)

؎          نکاح آسمانی ہو مگر بیوی نہ ہاتھ آئے

            رہے گی حسرت دیدار تا روزِ جزا باقی

مرزا قادیانی اپنے الہام کے حوالہ سے مزید لکھتا ہے:

(14)      ’’اس جگہ مطلب یہ ہے کہ جب یہ پیشگوئی معلوم ہوئی اور ابھی پوری نہیں ہوئی تھی (جیسا کہ اب تک بھی جو 16 اپریل 1891ء ہے، پوری نہیں ہوئی) تو اس کے بعد اس عاجز کو ایک سخت بیماری آئی یہاں تک کہ قریب موت کے نوبت پہنچ گئی بلکہ موت کو سامنے دیکھ کر وصیت بھی کر دی گئی۔ اس وقت گویا پیشگوئی آنکھوں کے سامنے آ گئی اور یہ معلوم ہو رہا تھا کہ اب آخری دم ہے اور کل جنازہ نکلنے والا ہے۔ تب میں نے اس پیشگوئی کی نسبت خیال کیا کہ شاید اس کے اور معنی ہوں گے جو میں سمجھ نہیں سکا۔ تب اسی حالت قریب الموت میں مجھے الہام ہوا الحق من ربک فلا تکونن من الممترین یعنی یہ بات تیرے رب کی طرف سے سچ ہے تُو کیوں شک کرتا ہے۔‘‘

(ازالہ اوہام صفحہ 306 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 306 از مرزا قادیانی)

اپنے نفس کو ’’خدا‘‘ بنا لیا جائے تو وہ اسی طرح فریب دیا کرتا ہے۔

(15)      مرزا قادیانی محمدی بیگم سے نکاح کے سلسلہ میں اپنی وحی بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:

’’فاوحی اللّٰہ الیّ ان اخطب صبیۃ الکبیرۃ لنفسک۔ وقل لہ لیصاھرک اولاً ثم لیقتبس من قبسک۔ وقل انی امرت لاھبک ما طلبت من الارض وارضًا اخری معھا واحسن الیک باحسانات اخری علی ان تنکحنی احدی بناتک التی ھی کبیرتھا و ذلک بینی و بینک فان قبلت فستجدنی من المتقبلین۔ وان لم تقبل فاعلم ان اللّٰہ قد اخبرنی ان انکاحھا رجلا اخر لا یبارک لھا ولا لک فان لم تزدجر فیصب علیک مصائب و آخر المصائب موتک فتموت بعد النکاح الٰی ثلث سنین۔ بل موتک قریب و یرد علیک و انت من الغافلین۔ وکذٰلک یموت بعلھا الذی یصیر زوجھا الٰی حولین و ستۃ اشھر۔ قضائً من اللّٰہ فاصنع ما انت صانعہ وانی لک لمن الناصحین۔ فعبس وتولٰی وکان من المعرضین۔ ثم کتبت الیہ مکتوباً بایماء منانی۔ واشارۃ رحمانی۔ و نمقت فیہ۔‘‘

(ترجمہ) ’’اللہ تعالیٰ نے مجھ پر وحی نازل کی کہ اس شخص (احمد بیگ) کی بڑی لڑکی کے نکاح کے لیے درخواست کر اور اس سے کہہ دے کہ پہلے وہ تمھیں دامادی میں قبول کرے اور پھر تمھارے نور سے روشنی حاصل کرے اور کہہ دے کہ مجھے اس زمین کے ہبہ کرنے کا حکم مل گیا ہے، جس کے تم خواہش مند ہو بلکہ اس کے ساتھ اور زمین بھی دی جائے گی اور دیگر مزید احسانات تم پر کیے جائیں گے۔ بشرطیکہ تم اپنی بڑی لڑکی کا مجھ سے نکاح کر دو۔ میرے اور تمھارے درمیان یہی عہد ہے۔ تم مان لو گے تو میں بھی تسلیم کر لوں گا۔ اگر تم قبول نہ کرو گے تو خبردار رہو۔ مجھے خدا نے یہ بتلایا ہے کہ اگر کسی اور شخص سے اس لڑکی کا نکاح ہوگا تو نہ اس لڑکی کے لیے یہ نکاح مبارک ہوگا اور نہ تمھارے لیے۔ ایسی صورت میں تم پر مصائب نازل ہوں گے، جن کا نتیجہ موت ہوگا۔

پس تم نکاح کے بعد تین سال کے اندر مر جائو گے بلکہ تمہاری موت قریب ہے اور ایسا اس لڑکی کا شوہر بھی اڑھائی سال کے اندر مر جائے گا۔ یہ حکم اللہ ہے۔ پس جو کرنا ہے کر لو۔ میں نے تم کو نصیحت کر دی ہے۔ پس وہ (مرزا احمد بیگ) تیوری چڑھا کر چلا گیا۔‘‘

(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 572، 573 روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 572، 573 از مرزا قادیانی)

مرزا احمد بیگ کا بڑا لڑکا محمد بیگ (محمدی بیگم کا حقیقی بھائی) حکیم نور الدین کے پاس ایک بیماری کے سلسلہ میں زیر علاج تھا۔ اس لڑکے نے مرزا قادیانی کو کئی خطوط لکھے کہ آپ حکیم نور الدین کو میری سفارش کر دیں کہ وہ مجھے محکمہ پولیس میں نوکر کروا دیں۔ اس پر مرزا قادیانی نے حکیم نورالدین کو حسب ذیل خط لکھا:

q          ’’مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نور دین صاحب!

السلام علیکم! محمد بیگ لڑکا جو آپ کے پاس ہے۔ آنمکرم کو معلوم ہوگا کہ اس کا والد مرزا احمد بیگ بوجہ اپنی بے سمجھی اور حجاب کے اس عاجز سے سخت عداوت و کینہ رکھتا ہے اور ایسا ہی اس کی والدہ بھی، چونکہ خدا تعالیٰ نے بوجہ اپنے بعض مصالح کے اس لڑکے کی ہمشیرہ کی نسبت وہ الہام ظاہر فرمایا تھا کہ جو بذریعہ اشتہارات شائع ہو چکا ہے، اس وجہ سے ان لوگوں کے دلوں میں حد سے زیادہ جوشِ مخالفت ہے اور مجھے معلوم نہیں کہ وہ امر جس کی نسبت مجھے اس شخص کی ہمشیرہ کی نسبت اطلاع دی گئی ہے، کیونکر اور کس راہ سے وقوع میں آئے گا اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نرمی کارگر نہ ہوگی، یفعل اللّٰہ مایشاء کرتا ہے جو اللہ چاہتا ہے، لیکن تاہم کچھ مضائقہ نہیں کہ ان لوگوں کی سختی کے عوض میں نرمی اختیار کر کے ادفع بالتی ھی احسن کا ثواب حاصل کیا جائے اس لڑکے محمد بیگ کے کتنے خطوط اس مضمون کے پہنچے کہ مولوی صاحب پولیس کے محکمہ میں مجھ کو نوکر کرا دیں۔

آپ براہ مہربانی اس کو بلا کر نرمی سے سمجھائیں کہ تیری نسبت انھوں (غلام احمد قادیانی) نے بہت سفارش لکھی ہے اور تیرے لیے جہاں تک گنجائش اور مناسب وقت ہو، کچھ فرق نہ ہوگا۔ (یہاں حکیم نوردین کو جھوٹ بولنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ مرتب) غرض آنمکرم میری طرف سے اس کے ذہن نشین کر دیں کہ وہ تیری نسبت بہت تاکید کرتے ہیں، اگر محمد بیگ آپ کے ساتھ آنا چاہے تو ساتھ لے آویں… زیادہ خیریت ہے۔‘‘

والسلام۔ خاکسار غلام احمد، لدھیانہ محلہ اقبال گنج 21 مارچ 1891ء

اس خط سے مرزا قادیانی کی ذہنیت کا اندازہ خود بخود ہو جاتا ہے کہ وہ کس طرح محمدی بیگم کے بھائی کو ملازمت کا لالچ دے کر اس کی برین واشنگ کر رہا ہے کہ مناسب وقت یعنی محمدی بیگم کا مرزا قادیانی سے پہلے نکاح ہو جائے، پھر ملازمت کی کوشش کی جائے گی لہٰذا پہلے تم مرزا قادیانی کے نکاح کے سلسلہ میں کوشش کرو۔

مرزا قادیانی نے محمدی بیگم سے شادی کے سلسلہ میں اپنے رشتہ داروں کو بھی خطوط لکھے اور انھیں مجبور کیا کہ لڑکی کے والد احمد بیگ کو اس نکاح کے لیے تیار کیا جائے اور خود احمد بیگ کو 20 فروری 1888ء کو ایک لالچ بھرا خط لکھا کہ اگر تم نے اپنی بچی کا نکاح میرے ساتھ کر دیا تو میں نہ صرف ان کاغذات پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہوں بلکہ تمھیں جائیداد بھی ملے گی اور تمھارے لڑکے کو پولیس کی ملازمت بھی دلا دوں گا۔ مرزا قادیانی کا خط ملاحظہ فرمائیے:

q          ’’مکرمی مخدومی اخویم مرزا احمد بیگ! السلام علیکم!

ابھی ابھی مراقبہ سے فارغ ہی ہوا تھا تو کچھ غنودگی سی ہوئی اور خدا کی طرف سے یہ حکم ہوا کہ احمد بیگ کو مطلع کر دے کہ وہ بڑی لڑکی کا رشتہ منظور کرے، یہ اس کے حق میں ہماری جانب سے خیر و برکت ہوگا اور ہمارے انعام و اکرام بارش کی طرح اس پر نازل ہوں گے اور تنگی اور سختی اس سے دور کر دی جائے گی اور اگر انحراف کیا تو موردِ عتاب ہوگا اور ہمارے قہر سے نہ بچ سکے گا۔ اور میں نے اس کا حکم پہنچا دیا تاکہ اس کے رحم و کرم سے حصہ پائو اور اس کی بے بہا نعمتوں کے خزانے تم پر کھولے جائیں اور میں اپنی طرف سے تو صرف یہی عرض کرتا ہوں کہ میں آپ کا ہمیشہ ادب و لحاظ ہی ملحوظ رکھتا ہوں اور آپ کو ایک دین دار اور ایمان دار بزرگ تصور کرتا ہوں اور آپ کے حکم کو اپنے لیے فخر سمجھتا ہوں اور ہبہ نامہ جب لکھو، حاضر ہو کر دستخط کر جائوں اور اس کے علاوہ میری املاک خدا کی اور آپ کی ہے، اور میں نے عزیز محمد بیگ کے لیے پولیس میں بھرتی کرانے کی اور عہدہ دلانے کی خاص کوشش و سفارش کر لی ہے تاکہ وہ کام میں لگ جاوے اور اس کا رشتہ میں نے ایک بہت امیر آدمی جو میرے عقیدت مندوں میں ہے تقریباً کر دیا ہے اور اللہ کا فضل آپ کے شامل حال ہو! فقط

خاکسار غلام احمد عفی عنہ لدھیانہ اقبال گنج‘‘

20 فروری 1888ء

مذکورہ بالا خط کا جواب نہ ملنے پر مرزا قادیانی نے درج ذیل دوسرا خط روانہ کیا۔ یاد رہے کہ بقول مرزا قادیانی انھوں نے یہ خط بھی اللہ تعالیٰ کے ایما اور اشارہ سے احمد بیگ کو لکھا:

(16)      ’’بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ امابعد فاسمع ایھا العزیز ما لک اتخذت جدّی عبثا۔ و حسبت تبری خبثا۔ وواللّٰہ ما ارید ان اشق علیک و ستجدنی انشاء اللّٰہ من المحسنین۔ وھا انا اکتب بعھد موثق فانک ان قبلت قولی علی رغم انف قبیلتی فافرض لک حصّۃ فی ارضی و خمیلتی و یرتفع الخلاف والنزاع بھذہ الوصلۃ من بیننا و یصلح اللّٰہ قلوب شعبی و عشیرتی۔ وفی کل منیتک اقتفی صغوک و ازیل قشفک فتکون من الفائزین۔ لامن الفائزین۔

والحق والحق اقول انی اکتب ھذا المکتوب بخلوص قلبی و جنانی۔ فان قبلت قولی و بیانی۔ فقد صنعت لطفاً الیّ۔ وکان لک احسانًا علیّ۔ و معروفًا لدی۔ فاشکرک وادعو زیادۃ عمرک من ارحم الراحمین۔ وانی اقیم معک عھدی۔ انی اعطی بنتک ثلثا من ارضی ومن کل ما ملکتہ یدی۔ ولا تسئلنی خطۃ الا اعطیک ایاھا وانی من الصادقین۔ ولن تجد مثلی فی رعایۃ الصلۃ ومودۃ الاقارب و حقوق الوصلۃ و تجدنی ناصر نوائبک وحامل اثقالک فلا تضیع وقتک فی الاباء ولا تستنکر حبک ولا تکونن من الممترین۔ وھا انا کتبت مکتوبی ھذا من امر ربیّ لاعلن امری فاحفظ مکتوبی ھذا فی صندوقک فانہ من صدوق امین واللّٰہ یعلم اننی فیہ صادق و کل ما وعدت فھو من اللّٰہ تعالٰی وما قلت اذ قلت ولکن انطقنی اللّٰہ تعالٰی بالھامہ۔ وکانت ھذہ وصیۃ من ربی فقضبتھاما کان لی حاجۃ الیک و الٰی بنتک وما ضیق اللّٰہ علیّ والنساء سواھا کثیرۃ واللّٰہ یتولی الصالحین۔ فلا تنظر الٰی مکتوبی بعین الارتیاب۔ فانہ کتبتہ بامحاض النصح والتزام الصدق والصواب۔ودع الجدال وانتظر الاجال۔ فان مضی الاجل وما حصحص الصدق فاجعل حبلاً فی جیدی و سلاسل فی ارجلی و عذبنی بعذاب لم یعذب بہ احد من العالمین۔ کنتم قد طلبتم آیۃ من ربّی فھذہ آیۃ لکم انہ یاخذ المنکرین من مکان قریب و یختارما کان اقرب التعذیبات فی حقھم وادنی من افھامھم واشد اثراً فی اعراضھم۔ و اجسامھم لیری المحتالین ضعفھم ویکسر کبر الضائمین۔ ھذا ما کتبت الٰی احمد بیک فی سنۃ ۱۳۰۴ھ۔

(ترجمہ) بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اے عزیز سنیے! آپ کو کیا ہو گیا ہے کہ آپ میری سنجیدہ بات کو لغو سمجھتے ہیں اور میرے کھرے کو کھوٹا خیال کرتے ہیں۔ بخدا میرا یہ ارادہ نہیں کہ میں آپ کو تکلیف دوں۔ انشاء اللہ آپ مجھے احسان کرنے والوں میں سے پائیں گے اور میں یہ عہدِ استوار کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ اگر آپ نے میرے خاندان کے خلافِ مرضی میری بات کو مان لیا تو میں اپنی زمین اور باغ میں آپ کو حصہ دوں گا اور اس رشتہ کی وجہ سے آپس کی نزاع اور اختلاف رفع ہو جائے گا اور خدا میرے کنبہ اور خاندان کے قلوب کی اصلاح کر دے گا… اگر آپ نے میرا قول اور بیان مان لیا تو مجھ پر مہربانی اور احسان اور میرے ساتھ نیکی ہوگی۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں اور آپ کی درازی عمر کے لیے ارحم الراحمین کے جناب میں دعا کروں گا اور آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کی لڑکی کو اپنی زمین اور مملوکات کا ایک تہائی حصہ دوں گا اور میں سچ کہتا ہوں کہ اس میں سے جو کچھ مانگیں گے، میں آپ کو دوں گا۔ صلہ رحم عزیزوں سے محبت اور رشتہ کے حقوق کے بارے میں آپ کو مجھ جیسا کوئی شخص نہیں ملے گا۔ آپ مجھے مصیبتوں میں اپنا دستگیر اور بار اٹھانے والا پائیں گے۔ اس لیے انکار میں اپنا وقت ضائع نہ کیجیے اور شک و شبہ میں نہ پڑیے۔

میں اپنا یہ خط اپنے پروردگار کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔ اپنی رائے سے نہیں۔ آپ میرے اس خط کو اپنے صندوق میں محفوظ رکھیے۔ یہ خط بڑے سچے اور امین کی جانب سے ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں اس میں سچا ہوں اور جو کچھ میں نے وعدہ کیا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور میں نے جو کہا ہے وہ میں نے نہیں کہا بلکہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے اپنے الہام سے کہلوایا ہے اور یہ مجھے میرے پروردگار کی وصیت تھی۔ اس لیے میں نے اسے پورا کیا۔ ورنہ مجھے آپ کی یا آپ کی لڑکی کی کچھ حاجت نہیں تھی… اگر میعاد گزر جائے اور سچائی ظاہر نہ ہو تو میرے گلے میں رسی اور پائوں میں زنجیر ڈالنا اور مجھے ایسی سزا دینا کہ تمام دنیا میں کسی کو نہ دی گئی ہو۔ یہ خط میں نے احمد بیگ کو 1304ھ میں لکھا تھا۔‘‘

(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 573، 574 روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 573، 574 از مرزا قادیانی)

مرزا قادیانی کی ان تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ محمدی بیگم سے شادی کے سلسلہ میں کس قدر بے تاب تھا۔ وہ لڑکی کے باپ کو ہر قسم کا لالچ اور دھمکی بھی دے رہا ہے کہ آپ کو اپنی زمین اور باغ میں سے حصہ دوں گا۔ آپ کی لڑکی کو جائیداد میں سے حصہ ملے گا۔ آپ کے لیے لمبی عمر کی دعا کروں گا۔ اگر یہ سچ نہ ہوا تو میرے گلے میں رسی ڈال کر ایسی سزا دینا جو کسی کو نہ دی گئی ہو۔ بس تم جلدی محمدی بیگم کا نکاح مجھ سے کر دو۔ اگر ایسا نہ کیا تو لڑکی کا باپ مر جائے گا، لڑکی کا شوہر مر جائے گا۔ قارئین کرام! آپ خود بتائیں کیا یہ باتیں نبی تو کجا کسی شریف آدمی کو جس کے دل میں ذرا بھی شرم و حیا ہو، زیب دیتی ہیں؟

اس کے بعد مرزا قادیانی نے اپنے سمدھی مرزا علی شیر بیگ کو خط لکھا جو مرزا فضل احمد کی بیوی عزت بی بی کا والد تھا۔ اس خط میں بھی مرزا قادیانی نے رشتہ کے سلسلہ میں بے حد منت سماجتیں کی ہیں اور خود کو ذلت کی حد تک پستی میں گرایا۔ آئیے! مرزا قادیانی کا خط پڑھیے اور ان کی بے بسی کا اندازہ لگائیے!

مشفقی مرزا علی شیر بیگ صاحب

q          السلام علیکم! اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ مجھ کو آپ سے کسی طرح سے فرق نہ تھا اور میں آپ کو ایک غریب طبع اور نیک خیال آدمی اور اسلام پر قائم سمجھتا ہوں۔ لیکن اب جو آپ کو ایک خبر سناتا ہوں آپ کو اس سے بہت رنج گزرے گا۔ مگر میں محض ان لوگوں سے تعلق چھوڑنا چاہتا ہوں جو مجھے ناچیز بتاتے ہیں اور دین کی پرواہ نہیں رکھتے۔ آپ کو معلوم ہے کہ مرزا احمد بیگ کی لڑکی کے بارے میں ان لوگوں کے ساتھ کس قدر میری عداوت ہو رہی ہے۔ اب میں نے سنا ہے کہ عید کے دوسری یا تیسری تاریخ کو اس لڑکی کا نکاح ہونے والا ہے اور آپ کے گھر کے لوگ اس مشورہ میں ساتھ ہیں۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس نکاح کے شریک میرے سخت دشمن ہیں۔ بلکہ میرے کیا دین اسلام کے سخت دشمن ہیں۔ عیسائیوں کو ہنسانا چاہتے ہیں۔ ہندوئوں کو خوش کرنا چاہتے ہیں اور اللہ رسولؐ کے دین کی کچھ بھی پرواہ نہیں رکھتے، اور اپنی طرف سے میری نسبت ان لوگوں نے پختہ ارادہ کر لیا ہے کہ اس کو خوار کیا جائے، ذلیل کیا جائے، رُوسیاہ کیا جائے۔ یہ اپنی طرف سے ایک تلوار چلانے لگے ہیں، اب مجھ کو بچا لینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ اگر میں اس کا ہوں گا تو ضرور مجھے بچائے گا۔ اگر آپ کے گھر کے لوگ سخت مقابلہ کر کے اپنے بھائی کو سمجھاتے تو کیوں نہ سمجھ سکتا۔ کیا میں چُوہڑا  یا چمار تھا، جو مجھ کو لڑکی دینا عار یا ننگ تھی بلکہ وہ تو اب تک ہاں سے ہاں ملاتے رہے اور اپنے بھائی کے لیے مجھے چھوڑ دیا اور اب اس لڑکی کے نکاح کے لیے سب ایک ہو گئے۔ یوں تو مجھے کسی کی لڑکی سے کیا غرض، کہیں جائے، مگر یہ تو آزمایا گیا کہ جن کو میں خویش سمجھتا تھا اور جن کی لڑکی کے لیے چاہتا تھا کہ اس کی اولاد ہو، وہ میری وارث ہو۔ وہی میرے خون کے پیاسے، وہی میری عزت کے پیاسے ہیں اور چاہتے ہیں کہ خوار ہو اور اس کا رُوسیاہ ہو۔ خدا بے نیاز ہے جس کو چاہے روسیاہ کرے مگر اب وہ مجھے آگ میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ میں نے خط لکھے کہ پرانا رشتہ مت توڑو۔ خدا تعالیٰ سے خوف کرو۔ کسی نے جواب نہ دیا بلکہ میں نے سنا ہے کہ آپ کی بیوی نے جوش میں آ کر کہا کہ ہمارا کیا رشتہ ہے، صرف عزت بی بی نام کے لیے فضل احمد کے گھر میں ہے۔ بیشک وہ طلاق دے دے، ہم راضی ہیں۔ اور ہم نہیں جانتے کہ یہ شخص کیا بلا ہے۔ ہم اپنے بھائی کے خلافِ مرضی نہیں کریں گے۔ یہ شخص کہیں مرتا بھی نہیں۔ پھر میں نے رجسٹری کرا کر آپ کی بیوی صاحب کے نام خط بھیجا۔ مگر کوئی جواب نہ آیا اور بار بار کہا کہ اس سے کیا ہمارا رشتہ باقی رہ گیا ہے، جو چاہے کرے۔ ہم اس کے لیے اپنے خویشوں سے اپنے بھائیوں سے جدا نہیں ہو سکتے۔ مرتا مرتا رہ گیا ابھی مرا بھی ہوتا۔ یہ باتیں آپ کی بیوی صاحب کی مجھے پہنچی ہیں۔ بے شک میں ناچیز ہوں، ذلیل ہوں اور خوار ہوں۔ مگر خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں میری عزت ہے۔ جو چاہتا ہے، کرتا ہے۔ اب جب میں ایسا ذلیل ہوں تو میرے بیٹے سے تعلق رکھنے کی کیا حاجت ہے۔ لہٰذا میں نے ان کی خدمت میں خط لکھ دیا ہے کہ اگر آپ اپنے ارادہ سے باز نہ آویں اور اپنے بھائی کو اس نکاح سے روک نہ دیں۔ پھر جیسا کہ آپ کی خود منشا ہے، میرا بیٹا فضل احمد بھی آپ کی لڑکی کو اپنے نکاح میں رکھ نہیں سکتا بلکہ ایک طرف جب محمدی کا کسی شخص سے نکاح ہو گا تو دوسری طرف فضل احمد آپ کی لڑکی کو طلاق دے دے گا۔ اگر نہیں دے گا تو میں اس کو عاق اور لاوارث کروں گا اور اگر میرے لیے احمد بیگ سے مقابلہ کرو گے اور یہ ارادہ اس کا بند کرا دو گے تو میں بدل و جان حاضر ہوں اور فضل احمد کو جو اَب میرے قبضہ میں ہے، ہر طرح سے درست کر کے آپ کی لڑکی کی آبادی کے لیے کوشش کروں گا اور میرا مال ان کا مال ہوگا۔ لہٰذا آپ کو بھی لکھتا ہوں کہ آپ اس وقت کو سنبھال لیں۔

اور احمد بیگ کو پورے زور سے خط لکھیں کہ باز آ جائیں اور اپنے گھر کے لوگوں کو تاکید کریں کہ وہ بھائی کو لڑائی کر کے روک دیوے۔ ورنہ مجھے خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ اب ہمیشہ کے لیے یہ تمام رشتے ناطے توڑ دوں گا۔ اگر فضل احمد میرا فرزند اور وارث بننا چاہتا ہے تو اسی حالت میں آپ کی لڑکی کو گھر میں رکھے گا اور جب آپ کی بیوی کی خوشی ثابت ہو۔

ورنہ جہاں میں رخصت ہوا۔ ایسا ہی سب ناطے رشتے بھی ٹوٹ گئے۔ یہ باتیں خطوں کی معرفت مجھے معلوم ہوئی ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ کہاں تک درست ہیں۔

راقم خاکسار غلام احمد۔        از لودھیانہ اقبال گنج 4 مئی 1891ء

اس خط کا جواب علی شیر بیگ صاحب نے دو روز بعد یوں لکھا اور اس میں جو ادبیت اور نہایت لطیف طنز ہے، وہ قابل ستائش ہے،

اخویم مرزا غلام احمد!

السلام علیکم! گرامی نامہ پہنچا غریب طبع یا نیک جو کچھ بھی آپ تصور کریں آپ کی مہربانی ہے۔ ہاں مسلمان ضرور ہوں، مگر آپ کی خود ساختہ نبوت کا قائل نہیں ہوں اور خدا سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے سلف صالحین کے طریقے پر ہی رکھے اور اسی پر میرا خاتمہ بالخیر کرے… باقی رہا تعلق چھوڑنے کا مسئلہ تو بہترین تعلق خدا کا ہے، وہ نہ چھوٹے اور باقی اس عاجز مخلوق کا ہوا تو پھر کیا، نہ ہوا تو پھر کیا اور احمد بیگ کے متعلق میں کر ہی کیا سکتا ہوں، وہ ایک سیدھا سادہ مسلمان آدمی ہے جو کچھ ہوا، آپ کی طرف ہی سے ہوا، نہ آپ فضول ایمان کو گنواتے اور الہام بانی کرتے اور نہ مرنے کی دھمکیاں دیتے اور نہ وہ کنارہ کش ہوتا… یہ ٹھیک ہے کہ خویش ہونے کی حیثیت سے آپ نے رشتہ طلب کیا مگر آپ خیال فرمائیں کہ اگر آپ کی جگہ احمد بیگ ہو اور احمد بیگ کی جگہ آپ ہوں، تو خدا لگتی کہنا کہ تم کن کن باتوں کا خیال کر کے رشتہ دو گے؟ اگر احمد بیگ سوال کرتا اور وہ مجمع المرائض ہونے کے علاوہ پچاس سال سے زیادہ عمر کا ہوتا اور اس پر وہ مسیلمہ کذاب کے کان بھی کتر چکا ہوتا تو آپ رشتہ دیتے؟ آپ کو خط لکھتے وقت یوں آپے سے باہر نہیں ہونا چاہیے، لڑکیاں سبھی کے گھروں میں ہیں اور نظام عالم انہی باتوں سے قائم ہے، کچھ حرج نہیں اگر آپ طلاق دلوائیں گے تو یہ بھی ایک پیغمبری کی نئی سنت دنیا پر قائم کر کے بدنامی کا سیاہ داغ مول لیں گے۔ باقی روٹی تو خدا اس کو بھی کہیں سے دے ہی دے گا تر نہ سہی خشک، مگر خشک بہتر ہے جو پسینہ کی کمائی سے پیدا کی جاتی ہے۔ میں بھائی احمد بیگ کو لکھ رہا ہوں بلکہ آپ کا خط بھی اس کے ساتھ شامل کر دیا گیا ہے، مگر میں ان کی موجودگی میں کچھ نہیں کر سکتا اور بیوی کا کیا حق ہے کہ وہ اپنی بیٹی کے لیے بھائی کی لڑکی کو ایک دائم المریض آدمی کو جو مراق سے خدائی تک پہنچ چکا ہو کس طرح لڑے… ہاں اگر وہ خود مان لیں تو میں اور میری بیوی حارج نہ ہوں گے، آپ خود ان کو لکھیں مگر درشت اور سخت الفاظ آپ کا قلم گرانے کا عادی ہو چکا ہے، اس سے جہاں تک ہو سکے احتراز کریں اور منت سماجت سے کام لیں۔                       خاکسار علی شیر بیگ از قادیان 4 مئی 1891ئ۔

مرزا علی شیر کے اس خط میں مرزا قادیانی کے کردار کی صحیح تصویر کھینچی گئی ہے۔ اسے کہتے ہیں گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔ خط میں لکھا گیا ہے کہ مرزا قادیانی کی نبوت خود ساختہ ہے اور وہ اپنے دعویٰ میں مسیلمہ کذاب سے بڑھ کر ہے۔ بلیک میلنگ میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں۔ وہ جسمانی بیماریوں کا مجموعہ اور مراقی ہے۔

جس روز علی شیر بیگ، مرزا قادیانی کو مذکورہ بالا خط لکھ رہے تھے، ٹھیک اسی دن مرزا قادیانی نے علی شیر بیگ کی اہلیہ کو درجِ ذیل خط تحریر کیا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

q          والدۂ عزت بی بی کو معلوم ہو کہ مجھ کو خبر پہنچی ہے کہ چند روز تک محمدی بیگم مرزا احمد بیگ کی لڑکی کا نکاح ہونے والا ہے۔ اور میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا چکا ہوں کہ اس نکاح سے سارے رشتے ناطے توڑ دوں گا اور کوئی تعلق نہیں رہے گا۔ اس لیے نصیحت کی راہ سے لکھتا ہوں کہ اپنے بھائی مرزا احمد بیگ کو سمجھا کر یہ ارادہ موقوف کرائو اور جس طرح تم سمجھا سکتے ہو، اس کو سمجھا دو۔ اور اگر ایسا نہیں ہوگا تو آج میں نے مولوی نور دین صاحب اور فضل احمد کو خط لکھ دیا ہے کہ اگر تم اس ارادہ سے باز نہ آئو تو فضل احمد، عزت بی بی کے لیے طلاق نامہ لکھ کر بھیج دے۔ اور اگر فضل احمد طلاق نامہ لکھنے میں عذر کرے تو اس کو عاق کیا جائے اور اپنے بعد اس کو وارث نہ سمجھا جائے اور ایک پیسہ وراثت کا اس کو نہ ملے۔ سو امید رکھتا ہوں کہ شرطی طور پر اس کی طرف سے طلاق نامہ لکھا آ جائے گا جس کا یہ مضمون ہوگا کہ اگر مرزا احمد بیگ محمدی بیگم کے غیر کے ساتھ نکاح کرنے سے باز نہ آوے تو پھر اسی روز سے جو محمدی کا کسی اور سے نکاح ہو جائے عزت بی بی کو تین طلاق ہیں۔ سو اس طرح پر لکھنے سے اِس طرف تو محمدی بیگم کا کسی دوسرے سے نکاح ہوگا اور اُس طرف عزت بی بی پر فضل احمد کی طلاق پڑ جائے گی۔ سو یہ شرطی طلاق ہے اور مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ اب بجز قبول کرنے کے کوئی راہ نہیں اور اگر فضل احمد نے نہ مانا تو میں فی الفور اس کو عاق کر دوں گا اور پھر وہ میرے وراثت سے ایک دانہ نہیں پا سکتا اور اگر آپ اس وقت اپنے بھائی کو سمجھا لو تو آپ کے لیے بہتر ہوگا۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے عزت بی بی کی بہتری کے لیے ہر طرح سے کوشش کرنا چاہا تھا اور میری کوشش سے سب نیک بات ہو جاتی مگر آدمی پر تقدیر غالب ہے۔ یاد رہے کہ میں نے کوئی کچی بات نہیں لکھی۔ مجھے قسم ہے اللہ تعالیٰ کی کہ میں ایسا ہی کروں گا۔ اور خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے۔ جس دن نکاح ہو گا، اس دن عزت بی بی کا نکاح باقی نہیں رہے گا۔

            راقم مرزا غلام احمد از لودھیانہ اقبال گنج 4 مئی 1891ئ۔‘‘

(کلمہ فضل رحمانی صفحہ 123 تا 128 مصنفہ جناب قاضی فضل احمد گورداسپوری)

مرزا امام الدین، مرزا قادیانی کا چچا زاد بھائی اور محمدی بیگم کا ماموں تھا۔ مرزا بشیر احمد ایم اے کی ایک روایت کے مطابق احمد بیگ اس کے تابع تھا اور بالکل اس کے زیر اثر ہو کر اس کے اشارے پر چلتا تھا۔ مرزا قادیانی نے محمدی بیگم سے شادی کے بارے میں اس سے خط کتابت کی اور اسے لالچ دیا کہ اگر تم میرا یہ رشتہ کروا دو گے تو میں تمھیں دولت کی شکل میں انعام دوں گا۔ اس سلسلہ میں مرزا بشیر احمد ایم اے لکھتا ہے:

(17)      ’’بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ سنوری نے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب جالندھر جا کر قریباً ایک ماہ ٹھہرے تھے اور ان دنوں میں محمدی بیگم کے ایک حقیقی ماموں نے محمدی بیگم کا حضرت صاحب سے رشتہ کرا دینے کی کوشش کی تھی مگر کامیاب نہیں ہوا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب محمدی بیگم کا والد مرزا احمد بیگ ہوشیارپوری زندہ تھا، اور ابھی محمدی بیگم کا مرزا سلطان محمد سے رشتہ نہیں ہوا تھا۔ محمدی بیگم کا یہ ماموں جالندھر اور ہوشیارپور کے درمیان یکے میں آیا جایا کرتا تھا اور وہ حضرت صاحب سے کچھ انعام کا بھی خواہاں تھا۔ اور چونکہ محمدی بیگم کے نکاح کا عقدہ زیادہ تر اسی شخص کے ہاتھ میں تھا، اس لیے حضرت صاحب نے اس سے کچھ انعام کا وعدہ بھی کر لیا تھا۔‘‘

(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ 192، 193 از مرزا بشیر احمد ایم اے)

یہ گھر کی شہادت بآواز بلند اعلان کر رہی ہے کہ محمدی بیگم کے ساتھ نکاح کرانے کے لیے مرزا قادیانی، محمدی بیگم کے ماموں کو انعام یا رشوت دینے کے لیے تیار تھا۔ مرزائیو! خدا کے لیے غور کرو کہ پہلے اللہ تعالیٰ کے نام سے محمدی بیگم کے نکاح کی پیشگوئی شائع کرنا، پھر انعام، رشوت اور روپے کے لالچ سے نکاح کی کوشش کرنا کسی راستباز انسان کا کام ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں جیسا کہ خود مرزا قادیانی نے لکھا ہے۔ ’’ہم ایسے مرشد کو اور ساتھ ہی ایسے مرید کو کتوں سے بدتر اور نہایت ناپاک زندگی والا خیال کرتے ہیں کہ جو اپنے گھر سے پیشگوئیاں بنا کر پھر اپنے ہاتھ سے، اپنے مکر سے، اپنے فریب سے ان کے پوری ہونے کے لیے کوشش کرے اور کرائے۔‘‘                                                                                                                                                             (سراج منیر صفحہ 25 مندرجہ روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 27 از مرزا قادیانی)

خانہ بربادی

مرزا قادیانی کو شک تھا کہ ان کی پہلی بیوی کے دونوں بیٹے سلطان احمد اور فضل احمد محمدی بیگم سے نکاح کے بارے میں اپنے والد کی حمایت کرنے کے بجائے دوسرے فریق کا ساتھ دے رہے ہیں۔ لہٰذا مرزا قادیانی نے 2 مئی 1891ء کو ایک خاص اشتہار کے ذریعے انھیں دھمکی دی کہ اگر محمدی بیگم کا نکاح کسی اور جگہ ہو گیا تو نہ صرف وہ ہر قسم کی جائیداد وغیرہ سے عاق ہوں گے بلکہ ان کی والدہ کو بھی طلاق ہو جائے گی۔ ملاحظہ فرمائیں:

(18)      ’’ناظرین کو یاد ہوگا کہ اس عاجز نے ایک دینی خصومت کے پیش آ جانے کی وجہ سے ایک نشان کے مطالبہ کے وقت اپنے ایک قریبی مرزا احمد بیگ ولد مرزا گاماں بیگ ہوشیارپوری کی دختر کلاں کی نسبت بحکم و الہام الٰہی یہ اشتہار دیا تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہی مقدر اور قرار یافتہ ہے کہ وہ لڑکی اس عاجز کے نکاح میں آئے گی۔ خواہ پہلے ہی باکرہ ہونے کی حالت میں آ جائے اور یا خدا تعالیٰ بیوہ کر کے اس کو میری طرف لے آوے۔ چنانچہ تفصیل ان کُل امورِ مذکورہ بالا کی اس اشتہار میں درج ہے۔ اب باعثِ تحریر اشتہارِ ہذا یہ ہے کہ میرا بیٹا سلطان احمد نام جو نائب تحصیلدار لاہور میں ہے اور اس کی تائی صاحبہ جنھوں نے اس کو بیٹا بنایا ہوا ہے، وہی اس مخالفت پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ اور یہ سارا کام اپنے ہاتھ میں لے کر اس تجویز میں ہیں کہ عید کے دن یا اس کے بعد اس لڑکی کا کسی سے نکاح کیا جائے۔ اگر یہ اوروں کی طرف سے مخالفانہ کارروائی ہوتی تو ہمیں درمیان میں دخل دینے کی کیا ضرورت اور کیا غرض تھی۔ امر ربی تھا اور وہی اس کو اپنے فضل و کرم سے ظہور میں لاتا۔ مگر اس کام کے مدار المہام وہ لوگ ہو گئے جن پر اس عاجز کی اطاعت فرض تھی اور ہر چند سلطان احمد کو سمجھایا اور بہت تاکیدی خط لکھے کہ تُو اور تیری والدہ اس کام سے الگ ہو جائیں، ورنہ میں تم سے جدا ہو جائوں گا اور تمہارا کوئی حق نہیں رہے گا۔ مگر انھوں نے میرے خط کا جواب تک نہ دیا اور بکلی مجھ سے بیزاری ظاہر کی۔ اگر ان کی طرف سے ایک تیز تلوار کا بھی مجھے زخم پہنچتا تو بخدا میں اس پر صبر کرتا۔ لیکن انھوں نے دینی مخالفت کر کے اور دینی مقابلہ سے آزار دے کر مجھے بہت ستایا اور اس حد تک میرے دل کو توڑ دیا کہ میں بیان نہیں کر سکتا اور عمداً چاہا کہ میں سخت ذلیل کیا جائوں۔ سلطان احمد ان دو بڑے گناہوں کا مرتکب ہوا۔ اوّل یہ کہ اس نے رسول اللہﷺ کے دین کی مخالفت کرنی چاہی، اور یہ چاہا کہ دین اسلام پر تمام مخالفوں کا حملہ ہو اور یہ اپنی طرف سے اس نے ایک بنیاد رکھی ہے اس امید پر کہ یہ جھوٹے ہو جائیں گے اور دین کی ہتک ہو گی اور مخالفوں کی فتح۔ اس نے اپنی طرف سے مخالفانہ تلوار چلانے میں کچھ فرق نہیں کیا اور اس نادان نے نہ سمجھا کہ خداوند قدیر و غیور اس دین کا حامی ہے اور اس عاجز کا بھی حامی۔ وہ اپنے بندہ کو کبھی ضائع نہ کرے گا۔ اگر سارا جہان مجھے برباد کرنا چاہے تو وہ اپنی رحمت کے ہاتھ سے مجھ کو تھام لے گا، کیونکہ میں اس کا ہوں اور وہ میرا۔ دوم سلطان احمد نے مجھے جو میں اس کا باپ ہوں سخت ناچیز قرار دیا اور میری مخالفت پر کمر باندھی اور قولی اور فعلی طور پر اس مخالفت کو کمال تک پہنچایا اور میرے دینی مخالفوں کو مدد دی اور اسلام کی ہتک بدل و جان منظور رکھی۔ سو چونکہ اس نے دونوں طور کے گناہوں کو اپنے اندر جمع کیا۔ اپنے خدا کا تعلق بھی توڑ دیا اور اپنے باپ کا بھی۔ اور ایسا ہی اس کی دونوں والدہ نے کیا۔ سو جبکہ انھوں نے کوئی تعلق مجھ سے باقی نہ رکھا، اس لیے میں نہیں چاہتا کہ اب ان کا کسی قسم کا تعلق مجھ سے باقی رہے اور ڈرتا ہوں کہ ایسے دینی دشمنوں سے پیوند رکھنے میں معصیت نہ ہو۔ لہٰذا میں آج کی تاریخ کہ دوسری مئی 91ء ہے، عوام اور خواص پر بذریعہ اشتہار ہذا ظاہر کرتا ہوں کہ اگر یہ لوگ اس ارادہ سے باز نہ آئے اور وہ تجویز جو اس لڑکی کے ناطہ اور نکاح کرنے کی اپنے ہاتھ سے یہ لوگ کر رہے ہیں اس کو موقوف نہ کر دیا اور جس شخص کو انھوں نے نکاح کے لیے تجویز کیا ہے اس کو رد نہ کیا بلکہ اسی شخص کے ساتھ نکاح ہو گیا تو اسی نکاح کے دن سے سلطان احمد عاق اور محروم الارث ہوگا اور اسی روز سے اس کی والدہ پر میری طرف سے طلاق ہے۔ اور اگر اس کا بھائی فضل احمد جس کے گھر میں مرزا احمد بیگ والدِ لڑکی کی بھانجی ہے اپنی اس بیوی کو اسی دن جو اس کو نکاح کی خبر ہو اور طلاق نہ دیوے تو پھر وہ بھی عاق اور محروم الارث ہوگا۔ اور آئندہ ان سب کا کوئی حق میرے پر نہیں رہے گا اور اس نکاح کے بعد تمام تعلقاتِ خویشی و قرابت و ہمدردی دور ہو جائے گی۔ اور کسی نیکی، بدی، رنج راحت شادی اور ماتم میں ان سے شراکت نہیں رہے گی کیونکہ انھوں نے آپ تعلق توڑ دیے اور توڑنے پر راضی ہو گئے۔ سو اب ان سے کچھ تعلق رکھنا قطعاً حرام اور ایمانی غیوری کے برخلاف اور ایک دیوثی کا کام ہے۔مومن دیوث نہیں ہوتا۔

چوں نہ بود خویش را دیانت و تقویٰ

قطع رحم بہ از مودت قربیٰ

والسلام علٰی من اتبع الھدی۔

المشتھر

مرزا غلام احمد لودیانہ

2 مئی 1891ئ‘‘

( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 186، 187 طبع جدید از مرزا قادیانی)

اس ضمن میں مرزا بشیر احمد ایم اے اپنی والدہ کے حوالہ سے لکھتا ہے:

(19)      ’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب محمدی بیگم کی شادی دوسری جگہ ہو گئی اور قادیان کے تمام رشتہ داروں نے حضرت صاحب کی سخت مخالفت کی اور خلاف کوشش کرتے رہے اور سب نے احمد بیگ والدِ محمدی بیگم کا ساتھ دیا اور خود کوشش کر کے لڑکی کی شادی دوسری جگہ کرا دی تو حضرت صاحب نے مرزا سلطان احمد اور مرزا فضل احمد دونوںکو الگ الگ خط لکھا کہ ان سب لوگوں نے میری سخت مخالفت کی ہے۔ اب ان کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں رہا اور ان کے ساتھ اب ہماری قبریں بھی اکٹھی نہیں ہو سکتیں۔ لہٰذا اب تم اپنا آخری فیصلہ کرو۔ اگر تم نے میرے ساتھ تعلق رکھنا ہے تو پھر اُن سے قطع تعلق کرنا ہوگا اور اگر اُن سے تعلق رکھنا ہے تو پھر میرے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں رہ سکتا۔ میں اس صورت میں تم کو عاق کرتا ہوں۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ مرزا سلطان احمد کا جواب آیا کہ مجھ پر تائی صاحبہ کے احسانات ہیں۔ ان سے قطع تعلق نہیں کر سکتا۔ مگر مرزا فضل احمد نے لکھا کہ میرا تو آپ کے ساتھ ہی تعلق ہے، ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ حضرت صاحب نے مرزا فضل احمد کو جواب دیا کہ اگر یہ درست ہے تو اپنی بیوی بنتِ مرزا علی شیر کو (جو سخت مخالف تھی اور مرزا احمد بیگ کی بھانجی تھی) طلاق دے دو۔ مرزا فضل احمد نے فوراً طلاق نامہ لکھ کر حضرت صاحب کے پاس روانہ کر دیا۔ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ پھر فضل احمد باہر سے آ کر ہمارے پاس ہی ٹھہرتا تھا مگر اپنی دوسری بیوی کی فتنہ پردازی سے آخر پھر آہستہ آہستہ اُدھر جا ملا۔‘‘

(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ 28، 29 از مرزا بشیر احمد ایم اے)

مرزا بشیر احمد ایم اے مزید لکھتا ہے:

(20)      ’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیحِ موعود کو اوائل سے ہی مرزا فضل احمد کی والدہ سے جن کو لوگ عام طور پر ’’پھجے دی ماں‘‘ کہا کرتے تھے، بے تعلقی سی تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت صاحب کے رشتہ داروںکو دین سے سخت بے رغبتی تھی اور ان کا ان کی طرف میلان تھا اور وہ اسی رنگ میں رنگین تھیں۔ اس لیے حضرت مسیح موعود نے ان سے مباشرت ترک کر دی تھی، ہاں آپ اخراجات وغیرہ باقاعدہ دیا کرتے تھے۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میری شادی کے بعد حضرت صاحب نے انھیں کہلا بھیجا کہ آج تک تو جس طرح ہوتا رہا ہوتا رہا، اب میں نے دوسری شادی کر لی ہے، اس لیے اب اگر دونوں بیویوں میں برابری نہیں رکھوں گا تو میں گنہگار ہوں گا۔ اس لیے اب دو باتیں ہیں یا تو تم مجھ سے طلاق لے لو اور یا مجھے اپنے حقوق چھوڑ دو۔ میں تم کو خرچ دیے جائوں گا۔ انھوں نے کہلا بھیجا کہ اب میں بڑھاپے میں کیا طلاق لوں گی۔ بس مجھے خرچ ملتا رہے۔ میں اپنے باقی حقوق چھوڑتی ہوں۔ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں۔ چنانچہ پھر ایسا ہی ہوتا رہا۔ حتیٰ کہ محمدی بیگم کا سوال اٹھا اور آپ کے رشتہ داروں نے مخالفت کر کے محمدی بیگم کا نکاح دوسری جگہ کرا دیا اور فضل احمد کی والدہ نے ان سے قطع تعلق نہ کیا بلکہ ان کے ساتھ رہیں۔ تب حضرت صاحب نے ان کو طلاق دے دی۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ طلاق دینا آپ کے اس اشتہار کے مطابق تھا جو آپ نے 2 مئی 1891ء کو شائع کیا تھا اور جس کی سرخی تھی ’’اشتہار نصرتِ دین و قطع تعلق از اقارب مخالفِ دین۔‘‘

(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ 33، 34 از مرزا بشیر احمد ایم اے)

مرزا قادیانی نے اپنے مخالفوں کو ’’کنجریوں کی اولاد‘‘ کہا ہے:

(21)      ’’تلک کتب ینظر الیھا کل مسلم بعین المحبۃ والمودۃ و ینتفع من معارفھا و یقبلنی و یصدق دعوتی۔ الا ذریۃ البغایا الذین ختم اللّٰہ علٰی قلوبھم فھم لا یقبلون۔‘‘

ترجمہ ’’میری ان کتابوں کو ہر مسلمان محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کے معارف سے فائدہ اٹھاتا ہے اور میری دعوت کی تصدیق کرتا ہے اور اسے قبول کرتا ہے مگر کنجریوں (بدکار عورتوں ) کی اولاد نے میری تصدیق نہیں کی۔‘‘

(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 547، 548 مندرجہ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 547، 548 از مرزا قادیانی)

مذکورہ بالا عبارات سے پتہ چلتا ہے کہ مرزا قادیانی کے بیٹوں مرزا سلطان احمد اور مرزا فضل احمد نے نہ صرف مرزا قادیانی کی مخالفت کی بلکہ اس کے مخالفین کی بھرپور حمایت کی۔ قادیانیوں سے سوال ہے کہ کیا مذکورہ بالا عبارت کی موجودگی میں مرزا قادیانی کے بیٹوں کا شمار کنجریوں کی اولاد میں ہوتا ہے؟

 مرزا قادیانی لکھتا ہے:

(22)      ’’14 اگست 1892ء مطابق 20 محرم 1309ھ ’’آج خواب میں مَیں نے دیکھا کہ محمدی (بیگم) جس کی نسبت پیشگوئی ہے باہر کسی تکیہ میں معہ چند کَس کے بیٹھی ہوئی ہے اور سر اُس کا شاید مُنڈا ہوا ہے اور بدن سے ننگی ہے اور نہایت مکروہ شکل ہے۔ میں نے اس کو تین مرتبہ کہا ہے کہ تیرے سر مُنڈی ہونے کی یہ تعبیر ہے کہ تیرا خاوند مر جائے گا اور میں نے دونوں ہاتھ اس کے سر پر اُتارے ہیں اور پھر خواب میں، مَیں نے یہی تعبیر کی ہے اور اسی رات والدۂ محمود نے خواب میں دیکھا کہ محمدی (بیگم) سے میرا نکاح ہو گیا ہے اور ایک کاغذ مہر ان کے ہاتھ میں ہے جس پر ہزار روپیہ مہر لکھا ہے اور شیرینی منگوائی گئی ہے۔ اور پھر میرے پاس وہ خواب میں کھڑی ہے۔‘‘

(تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات طبع چہارم صفحہ 160 از مرزا قادیانی)

یہ خواب تو مرزا قادیانی نے سخت ردِّعمل میں جان بوجھ کر دیکھا ہے۔

مرزا قادیانی محمدی بیگم کے خاوند کی موت کی پیش گوئی کرتے ہوئے لکھتا ہے:

(23)      ’’مرزا احمد بیگ ہوشیارپوری کے داماد کی موت کی نسبت پیشگوئی جو پٹی ضلع لاہور کا باشندہ ہے جس کی میعاد آج کی تاریخ سے جو 21 ستمبر 1893ء ہے، قریباً گیارہ مہینے باقی رہ گئی ہے۔ یہ تمام امورجو انسانی طاقتوں سے بالکل بالاتر ہیں ایک صادق یا کاذب کی شناخت کے لیے کافی ہیں۔‘‘

(شہادۃ القرآن صفحہ 79 مندرجہ روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 375 از مرزا قادیانی)

مرزا قادیانی کی تمام تر کوششوں، دھمکیوں، ترغیبات، تحریصات اور جھوٹے الہامات کے باوجود احمد بیگ نے اپنی بیٹی محمدی بیگم کا نکاح مسمی سلطان محمد سے 7 اپریل 1892ء کو بڑی دھوم دھام سے کردیا۔ اُدھر شہنائی بج رہی تھی، اِدھر مرزا قادیانی کے گھر میں ماتم برپا تھا۔ مرزا قادیانی کے قریبی دوست تو بخوبی جانتے تھے کہ مرزا قادیانی نے خدا کے نام پر جتنی باتیں کہی ہیں، ان کی کوئی حقیقت نہیں، یہ سب مرزا قادیانی کی اپنی اختراع ہے جو وہ خدا کے نام پر پیش کر رہا ہے لیکن نادان قادیانیوں کو کس طرح سمجھایا جائے کہ ان کے نبی کی آسمانی منکوحہ کسی اور کے نکاح میں دی جا چکی ہے اور ’’خدا‘‘ کے فیصلے پر انسانی فیصلے غالب آ چکے ہیں۔ مرزا قادیانی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ اپنی آسمانی منکوحہ کو سلطان محمد سے چھین سکے اور نہ اس کے کسی مرید میں یہ جرأت تھی کہ وہ اپنے نبی کی آسمانی بیوی کو کسی غیر کی منکوحہ ہونے سے روک سکے۔ مرزا قادیانی ذلت و حسرت کی تصویر بنا اپنی آسمانی منکوحہ کی رخصتی پر آنسو بہاتا رہا اور دانت پیستا رہا اور اس کے مریدوں کے منہ پر اس کی بے بسی اور شرمندگی کی گہری چھاپ صاف دکھائی دے رہی تھی۔

مرزا قادیانی نے اس نازک صورت حال کو دیکھتے ہوئے اعلان کیا کہ اسے خدا نے وحی کی ہے کہ اس بارے میں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ خدا نے اس کا نکاح آسمان پر تمھارے ساتھ ہی پڑھایا ہے۔ وہ تمہاری ہی منکوحہ ہے۔ اب اس دنیا میں اگر کوئی اسے اپنی منکوحہ بنا چکا ہے تو یہ اس کی عارضی منکوحہ ہوگی۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا اسے مرزا قادیانی کی منکوحہ بنائے اور کوئی دوسرا اسے لے اڑے۔ سو وقت آئے گا کہ اس آسمانی منکوحہ کا عارضی شوہر مرے گا اور خدا پھر اسے تمھارے پاس ہی لے آئے گا۔ مرزا قادیانی نے پوری ڈھٹائی کے ساتھ یہ اعلان کیا اور اشتہاروں پر اشتہار لکھے تاکہ اس کی جماعت سے نکلنے والے قادیانی واپس آ جائیں اور اسے اپنی آمدنی سے حصہ دیتے رہیں۔ مرزا قادیانی نے خدا کے نام سے یہ اعلان کیا:

(24)      ’’دختر احمد بیگ مسمی سلطان محمد سے بیاہی گئی۔ اس کا والد اور اس کے اقارب اور عزیز بہت بے دین تھے اور تکذیبِ حق میں حد سے بڑھے ہوئے تھے… اس لیے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ ان کو وہ نشان دکھلاوے جس سے وہ ذلیل ہوں۔ پس اس نے اس تمام ملحد گروہ کے حق میں مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ کذبوا بٰایاتنا وکانوا بھا یستھزؤن فسیکفیکھم اللّٰہ۔ ویردّھا الیک لا تبدیل لکلمات اللّٰہ ان ربک فعال لما یرید۔ یعنی ان لوگوں نے ہمارے نشانوں کی تکذیب کی اور ان سے ٹھٹھا کیا۔ سو خدا ان کے شر دُور کرنے کے لیے تیرے لیے کافی ہوگا اور انھیں یہ نشان دکھلائے گا کہ احمد بیگ کی بڑی لڑکی ایک جگہ بیاہی جائے گی اور خدا اس کو پھر تیری طرف واپس لائے گا، یعنی آخر وہ تیرے نکاح میں آئے گی۔ اور خدا سب روکیں درمیان سے اٹھا دے گا۔ خدا کی باتیں ٹل نہیں سکتیں۔ تیرا رب ایسا قادر ہے کہ جس کام کا وہ ارادہ کرے اس کام کو وہ اپنے منشا کے موافق ضرور پورا کرتا ہے۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 397، 398 طبع جدید از مرزا قادیانی)

مرزا قادیانی نے پھر خدا کے نام پر اعلان کیا:

(25)      ’’نفسِ پیشگوئی یعنی اُس عورت کا اس عاجز کے نکاح میں آنا یہ تقدیر مبرم ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی کیونکہ اس کے لیے الہام الٰہی میں یہ فقرہ موجود ہے کہ لاتبدیل لکلمات اللّٰہ۔ یعنی میری یہ بات ہرگز نہیں ٹلے گی پس اگر ٹل جائے تو خدا تعالیٰ کا کلام باطل ہوتا ہے… اس نے فرمایا کہ میں اس عورت کو اس کے نکاح کے بعد واپس لائوں گا اور تجھے دوں گا اور میری تقدیر کبھی نہیں بدلے گی اور میرے آگے کوئی بات انہونی نہیں اور میں سب روکوں کو اٹھا دوں گا جو اس حکم کے نفاذ سے مانع ہوں۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 399 طبع جدید از مرزا قادیانی)

ناظرین! اس سے بڑھ کر بھی کوئی صاف گوئی ہو گی جو مرزا قادیانی نے اس عبارت میں کی ہے؟ بات بھی صحیح ہے کہ خدا جس امر کی بابت خبر دے، پھر اس کی تاکید کے لیے ’’لاتبدیل‘‘ فرمائے؟ پھر وہ تبدیل ہو جائے تو خدائی کلام کے جھوٹ ہونے میں کچھ شک رہتا ہے؟ اب سوال یہ ہے کیا یہ نکاح مرزا قادیانی سے ہو گیا؟ آہ! اس کا جواب بڑی حسرت اور افسوس کے ساتھ نفی میں دیا جاتا ہے کہ تاحیات مرزا قادیانی کا نکاح نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ 26 مئی 1908ء کے دن بے چارہ اس حسرت کو اپنے ساتھ قبر میں لے گیا۔          ؎

لے گئے خاک میں ہم داغ تمنائے نشاط

تو ہو اور آپ یہ صد رنگ گلستاں ہونا

                                            (غالبؔ)

اب مرزا قادیانی نے محمدی بیگم اور اس کے خاندان کے لیے بددعائیں کرنا شروع کر دیں۔ اس نے خدا کے نام پر کہا:

(26)      ’’فدعوت ربی بالتضرع والابتہال و مددت الیہ ایدی السوال فالھمنی ربیّ وقال ساریھم اٰیۃً من انفسھم واخبرنی وقال اننی ساجعل بنتاً من بناتھم اٰیۃ لھم۔ فسماھا وقال انھا سیجعل ثیبۃ ویموت بعلھا و ابوھا الی ثلث سنۃ من یوم النکاح ثم نردھا الیک بعد موتھما ولا یکون احدھما من العاصمین وقال انارادوھا الیک لا تبدیل لکلمات اللّٰہ۔

(ترجمہ) میں نے بڑی عاجزی سے خدا سے دعا کی تو اس نے مجھے الہام کیا کہ میں ان (تیرے خاندان کے) لوگوں کو ان میں سے ایک نشانی دکھائوں گا۔ خدا تعالیٰ نے ایک لڑکی (محمدی بیگم) کا نام لے کر فرمایا کہ وہ بیوہ کی جاوے گی اور اس کا خاوند اور باپ یوم نکاح سے تین سال تک فوت ہو جائیں گے اور پھر ہم اس لڑکی کو تیری طرف لائیں گے اور کوئی اس کو روک نہ سکے گا۔‘‘

(مرزا قادیانی کا الہام، مندرجہ تالیف ’’کرامات الصادقین‘‘ سرورق آخر نمبر1، مندرجہ روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 162)

مرزا قادیانی نے مزید پیش گوئیاں کرتے ہوئے کہا:

(27)      ’’میں اشتہار 10 جولائی 1888ء میں شائع کر چکا ہوں جن کا مضمون یہی ہے کہ خدا تعالیٰ اس عورت کو بیوہ کر کے میری طرف رد کرے گا۔ اب انصاف سے دیکھیں کہ نہ کوئی انسان اپنی حیات پر اعتماد کر سکتا ہے اور نہ کسی دوسرے کی نسبت دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ فلاں وقت تک زندہ رہے گا۔ یا فلاں وقت تک مر جائے گا۔ مگر میری اس پیشگوئی میں نہ ایک بلکہ چھ دعوے ہیں۔ اوّل نکاح کے وقت تک میرا زندہ رہنا۔ دوم نکاح کے وقت تک اس لڑکی کے باپ کا یقینا زندہ رہنا۔ سوم پھر نکاح کے بعد اس لڑکی کے باپ کا جلدی سے مرنا جو تین برس تک نہیں پہنچے گا۔ چہارم اس کے خاوند کا اڑھائی برس کے عرصہ تک مر جانا۔ پنجم اس وقت تک کہ میں اس سے نکاح کروں اس لڑکی کا زندہ رہنا۔ ششم پھر آخر یہ بیوہ ہونے کی تمام رسموں کو توڑ کر باوجود سخت مخالفت اس کے اقارب کے میرے نکاح میں آ جانا۔ اب آپ ایماناً کہیں کہ کیا یہ باتیں انسان کے اختیار میں ہیں اور ذرا اپنے دل کو تھام کر سوچ لیں کہ کیا ایسی پیشگوئی سچے ہو جانے کی حالت میں انسان کا فعل ہو سکتی ہے؟‘‘

(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 324، 325 مندرجہ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 324، 325 از مرزا قادیانی)

مرزا قادیانی اپنا ایک الہام بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:

(28)      ’’اس زمانہ کے قریب ہی یہ بھی الہام ہوا تھا۔ بکر و ثیبٌ یعنی ایک کنواری اور ایک بیوہ تمھارے نکاح میں آئے گی۔‘‘(تریاق القلوب صفحہ 159 مندرجہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 287 از مرزا قادیانی)

جناب حافظ محمد اقبال رنگونی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:

’’مرزا قادیانی کی مذکورہ تصریحات اور پھر اس کی تشریحات سے یہ بات واضح ہے کہ محترمہ محمدی بیگم کی شادی ہو جانے کے باوجود مرزا قادیانی نے اس خاتون کی آبرو کا کوئی خیال نہیں کیا اور سالہا سال تک ایک غیر محرم خاتون کی عزت کو اچھالنے کا مشغلہ جاری رکھا۔ آپ ہی بتائیں کہ کیا مرزا قادیانی کو اس کی اجازت تھی کہ وہ کسی دوسرے کی منکوحہ کے بارے میں بار بار یہ اشتہار شائع کرے کہ وہ میری بیوی بنے گی، میرے گھر آئے گی، اس کا شوہر مرے گا، وہ میری ہی منکوحہ ہے، کچھ ہی ہو جائے، اسے میرے ہی پاس آنا ہے۔ ہر شریف آدمی اس قسم کی باتیں کرنے والے شخص کو بڑا بے شرم آدمی کہتا ہے مگر افسوس کہ قادیانیوں نے اسے خدا کے نبی کا درجہ دے رکھا ہے۔ چہ نسبت ناپاک رابعالم پاک!

مرزا قادیانی کو اس بات کا تو حق تھا کہ وہ محمدی بیگم کے شوہر کے انتقال کر جانے کے بعد پھر سے اپنے رشتہ کی بات چلاتا اور وہ بھی عدت گزرنے کے بعد اور پھر اسے لالچ اور دھمکیوں کے ذریعے اپنی منکوحہ بناتا مگر اسے یہ حق ہرگز نہ تھا کہ وہ ایک شخص کی منکوحہ کے بارے میں مسلسل یہ دعویٰ کرے کہ یہ اسی کی بیوی ہے، اور اس کا شوہر مر جائے گا، یہ واپس میرے پاس آ جائے گی۔ یہ اندازِ گفتگو اور اشتہارات اس بات کے شاہد ہیں کہ مرزا قادیانی کو شریف آدمی کہنا بھی شرافت کے خلاف ہے۔ ہاں یہ بات اور ہے کہ قادیانیوں کے ہاں شرافت کا معیار مرزا قادیانی کا گھنائونا کردار ہے، اور ایسے ہی لوگ ان کے ہاں سب سے بڑے شریف سمجھے جاتے ہیں۔ اسلام میں تو خاوند کے فوت ہونے کے بعد بھی عدت گزرنے سے پہلے بیوہ کو نکاح کا پیغام نہیں دیا جا سکتا چہ جائیکہ خاوند زندہ ہو، مرا بھی نہ ہو اور یہاں اس کے نکاحِ ثانی کے پیغام دیے جا رہے ہوں۔

اُن دنوں محمد بخش جعفر زٹلی نے اپنے رسالہ میں یہ اعلان شائع کیا کہ وہ عنقریب نصرت جہاں بیگم (مرزا قادیانی کی بیوی) سے بیاہ رچانے والا ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مرزا قادیانی کی موت کے بعد نصرت جہاں میرے نکاح میں آئے گی۔ پھر اس نے اپنے اعلان کی تائید میں چند خواب بھی سنائے اور بشارتیں بھی نقل کیں۔ مرزا قادیانی نے جب یہ اعلان پڑھا تو مارے غصہ کے سرخ ہو گیا اور اس نے لکھا:

q          ’’میری بیوی کی نسبت شیخ محمد حسین کے دوست جعفر زٹلی نے محض شرارت سے گندی خوابیں بنا کر سراسر بے حیائی کی راہ سے شائع کیں اور میری دشمنی سے اس میں وہ لحاظ و ادب بھی نہ رہا جو اہلِ بیتِ رسول کی پاک دامن خواتین سے رکھنا چاہیے۔ مولوی کہلانا اور یہ بے حیائی کی حرکات افسوس ہزار افسوس!!                                                                         (تحفہ گولڑویہ صفحہ 56 حاشیہ جلد 17 صفحہ 199)

اگر جعفر زٹلی اس لیے بے حیا ہے کہ وہ مرزا قادیانی کی بیوی کے بارے میں خواب سناتا ہے اور کسی وقت اس کے نکاح میں آنے کی خبر دیتا ہے تو مرزا قادیانی اس سے زیادہ بے حیا ہے کہ وہ مدعی نبوت ہو کر سلطان محمد کی بیوی محترمہ محمدی بیگم کے بارے میں الہامات سناتا ہے اور کسی دوسرے کی بیوی کو اپنے نکاح میں لانے کے بارے میں اشتہار شائع کرتا ہے۔ اگر جعفر زٹلی اس وجہ سے لائقِ نفرت ہیں تو مرزا قادیانی اس سے بدرجہ اولی لائق نفرین ٹھہرے۔ ہے کوئی قادیانی جو انصاف کا دامن تھامے اور مرزا قادیانی کو برسرعام بے حیا مانے؟ مرزا قادیانی نے جب خدا کے نام سے احمد بیگ کو اپنی لڑکی کا رشتہ دینے کے لیے کہا تو اسے یقین تھا کہ احمد بیگ اپنی مجبوری کے پیش نظر اس کی بات مان لے گا لیکن احمد بیگ نے غیرت کا مظاہرہ کیا۔ مرزا قادیانی نے دیگر ذرائع سے لالچ اور دھمکیاں دیں۔ وہ بھی بے اثر ثابت ہوئیں اب جبکہ لڑکی کا نکاح کسی اور جگہ ہو چکا اور وہ لڑکی کسی کی بیوی بن چکی، پھر بھی بار بار یہ بات دہرانا کہ اس کا شوہر مر جائے گا، ہمیں کسی اور بات کی خبر دیتا ہے۔ مرزا قادیانی کے خیال میں محمدی بیگم کس طرح بیوہ ہو سکتی تھی، اس وقت ہم اس پر بحث نہیں کر رہے، ہم صرف مرزا قادیانی کی غیر شریفانہ ذہنیت کی نشاندہی کر رہے ہیں تاکہ قادیانی عوام اس سے عبرت حاصل کریں اور وہ جان پائیں کہ مرزا قادیانی بداخلاقی کی کس سطح تک گر چکا تھا۔

مرزا قادیانی نے محمدی بیگم کے ساتھ نکاح کو نہ صرف خدائی پیغام بتایا بلکہ اسے اپنے صدق و کذب کا اہم عنوان بھی بنا دیا۔ اپنے اس عنوانِ صدق کی لاج رکھنے اور اپنے عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے کہ یہ خدائی معاملہ ہے، مرزا قادیانی نے اوچھی حرکتوں کے اختیار تک سے اجتناب نہ کیا۔ ایک ظالم اور لالچی شخص کوئی چیز حاصل کرنے کے لیے جتنا کچھ کر سکتا ہے، مرزا قادیانی نے وہ سب راہِ عمل اپنائے تاکہ وہ کسی طرح یہ کہنے میں کامیاب ہو جائے کہ یہ خدائی معاملہ ہے اور وہ اپنے دعویٰ میں سچا ہے۔ مرزا قادیانی نے اس رشتہ کو جو اہمیت دی ہے، اسے مرزا قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے اس طرح بیان کیا ہے:

q          ’’اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ الہامات (جن کا تعلق محمدی بیگم سے ہے) پیشگوئی کا بنیادی پتھر ہیں۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ 195)

آئیے دیکھیں کہ یہ بنیادی پتھر کس طرح ٹوٹتا ہے۔ اس کی بنیادیں کس طرح ہلتی ہیں اور مرزا قادیانی کس طرح اپنی بات میں جھوٹا نظر آتا ہے۔ مرزا قادیانی نے اپنے صدق و کذب کا معیار محمدی بیگم کے ساتھ نکاح کو ٹھہرایا اور کھلے طور پر اعلان کیا کہ اگر یہ پیش گوئی پوری ہو جائے تو وہ اپنے دعویٰ نبوت میں سچا ثابت ہوگا اور اگر محمدی بیگم اس کے نکاح میں نہ آئے تو وہ جھوٹا ہے اور اس کے گلے اور پائوں میں رسی ڈال کر اسے ذلیل کیا جائے۔‘‘

(اہم پیش گوئیاں اور ان کا جائزہ از حافظ محمد اقبال رنگونی)

مرزا قادیانی نے ایک پیش گوئی مسلمانوں کے لیے خاص کی جس کے کئی ایک حصے ہیں۔ مرزا قادیانی نے لکھا:

(29)      ’’(1) کہ مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری تین سال کی میعاد کے اندر فوت ہو۔ (2) اور پھر داماد اُس کا جو اُس کی دختر کلاں کا شوہر ہے، اڑھائی سال کے اندر فوت ہو۔ (3) اور پھر یہ کہ مرزا احمد بیگ تا روز شادی دختر کلاں فوت نہ ہو۔ (4) اور پھر یہ کہ وہ دختر بھی تا نکاح اور تا ایام بیوہ ہونے اور نکاح ثانی کے فوت نہ ہو۔ (5) اور پھر یہ کہ یہ عاجز بھی ان تمام واقعات کے پورے ہونے تک فوت نہ ہو۔ (6) اور پھر یہ کہ اس عاجز سے نکاح ہو جاوے۔‘‘

(شہادت القرآن صفحہ 81 مندرجہ روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 376 از مرزا قادیانی)

 یعنی داماد مرزا احمد بیگ کی موت کے متعلق اسی حوالہ میں کہا ہے کہ اس کی میعاد 21 ستمبر 1893ء سے قریباً گیارہ مہینہ باقی رہ گئی ہے۔ (شہادۃ القرآن صفحہ 79 مندرجہ روحانی  خزائن جلد 6 صفحہ 375)

یہ معیاد اگست 1894ء کو ختم ہوتی ہے یعنی مرزا قادیانی کے الہام کے مطابق مرزا سلطان محمد داماد مرزا احمد بیگ اگست 1894ء کے بعد بقید حیات نہیں رہ سکتا تھا۔ جب وہ اس مدت کے بعد بھی زندہ رہا تو مرزا قادیانی نے آخری اقرار نامہ ا ن لفظوں میں شائع کیا۔

(30)      ’’میں بار بار کہتا ہوں کہ نفسِ پیشگوئی داماد احمد بیگ کی تقدیر مبرم ہے۔ اس کی انتظار کرو اور اگر میں جھوٹا ہوں تو یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوگی اور میری موت آ جائے گی۔ اور اگر میں سچا ہوںتو خدا تعالیٰ ضرور اس کو بھی ایسے ہی پوری کر دے گا۔‘‘

(انجامِ آتھم صفحہ 31 مندرجہ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 31 از مرزا قادیانی)

 یہ عبارت بآواز بلند کہہ رہی ہے کہ مرزا سلطان محمد یعنی اس لڑکی کا خاوند جس سے مرزا قادیانی نے الہامی نکاح کا دعویٰ کیا تھا، وہ اگر مرزا قادیانی کی زندگی میں نہ مرے تو مرزا قادیانی کے دعویٰ الہام و رسالت وغیرہ بقول ان کے جھوٹے ہوں گے۔ اس کا نام مرزا قادیانی نے تقدیر مبرم رکھا ہے یعنی اٹل فیصلہ الٰہی، (حوالہ انجام آتھم صفحہ 31) اسی کتاب کے ضمیمہ انجام آتھم صفحہ 54 پر اس دعویٰ کو دوسرے لفظوں میں یوں شائع کیا:

(31)      ’’یاد رکھو کہ اس پیشگوئی کی دوسری جزپوری نہ ہوئی تو میں ہر ایک بد سے بدتر ٹھہروں گا۔ اے احمقو! یہ انسان کا افترا نہیں۔ یہ کسی خبیث مفتری کا کاروبار نہیں۔ یقینا سمجھو کہ یہ خدا کا سچا وعدہ ہے، وہی خدا جس کی باتیں نہیں ٹلتیں۔ وہی رب ذوالجلال جس کے ارادوں کو کوئی روک نہیں سکتا۔‘‘

(انجامِ آتھم ]ضمیمہ[ صفحہ 54 مندرجہ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 338 از مرزا قادیانی)

مزید کہا:

(32)      ’’جب تقدیر مبرم آ جاتی ہے تو ٹل نہیں سکتی۔‘‘

(انوار الاسلام صفحہ 10 مندرجہ روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 80 از مرزا قادیانی)

سلطان محمد مذکورہ اگست 1894ء تک نہ مرا بلکہ وہ مرزا قادیانی کی موت کے بعد 40 سال تک زندہ رہا۔ حالانکہ اس اثنا میں وہ جنگ عظیم کے دوران فرانس بھی گیا جہاں اس کی گدی میں گولی لگ کر سر سے نکل گئی مگر زندہ رہا اور اس کی اولاد بھی بہ کثرت آج تک خدا کے فضل سے موجود ہے۔ شریعت اسلامیہ کی تعلیم کا مفہوم ہے۔ یوخذ المرء باقرارہ۔ یعنی انسان اپنے اقرار پر ماخوذ ہوتا ہے۔ مرزا قادیانی نے نہ صرف اقرار کیا بلکہ شائع کیا کہ مرزا سلطان محمد کا مرنا میری زندگی میں اٹل فیصلہ الٰہی ہے۔ یہ بھی کہا اگر وہ میری زندگی میں نہ مرے تو میں جھوٹا۔ بلکہ یہ بھی صاف اقرار کیا کہ میں اس صورت میں یعنی مرزا سلطان محمد کے نہ مرنے کی صورت میں ہر بد سے بدتر ٹھہروں گا۔ جس صورت میں مرزا قادیانی کا یہ اقرار ہے اور الہامی اعلان ہے۔ اب پبلک فیصلہ کر سکتی ہے کہ وہ اپنے دعوے میں کہاں تک سچا تھا؟

ملاحظہ فرمائیں، مرزا قادیانی کا اقرار

(33)      ’’اگر ہم سچے ہیں تو خدا تعالیٰ ان پیشگوئیوں کو پورا کر دے گا۔ اور اگر یہ باتیں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہیں تو ہمارا انجام نہایت بد ہوگا، اور ہرگز یہ پیشگوئیاں پوری نہیں ہوں گی۔ ربنا افتح بیننا و بین قومنا بالحق وانت خیرالفاتحین۔ اور میں بالآخر دعا کرتا ہوں کہ اے خدائے قادر و علیم! اگر آتھم کا عذابِ مہلک میں گرفتار ہونا اور احمد بیگ کی دختر کلاں کا آخر اس عاجز کے نکاح میں آنا یہ پیشگوئیاں تیری طرف سے ہیں تو ان کو ایسے طور سے ظاہر فرما جو خلق اللہ پر حجت ہو اور کور باطن حاسدوں کا منہ بند ہو جائے۔ اور اگر اے خداوند! یہ پیشگوئیاں تیری طرف سے نہیں ہیں تو مجھے نامرادی اور ذلت کے ساتھ ہلاک کر، اگر میں تیری نظر میں مردود اور ملعون اور دجال ہی ہوں جیسا کہ مخالفوں نے سمجھا ہے۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 452 طبع جدید از مرزا قادیانی) –

مرزا قادیانی نے محمدی بیگم سے اپنے نکاح کے بارے میں اپنی پیش گوئی کو نہایت جرأت کے ساتھ حضور نبی کریمﷺ کی ایک حدیث کے ساتھ منسلک کرنے کی ناپاک جسارت کی۔

(34)      ’’اس پیشگوئی کی تصدیق کے لیے جناب رسول اللہﷺ نے بھی پہلے سے ایک پیشگوئی فرمائی ہے کہ یتزوج ویولد لہ۔ یعنی وہ مسیحِ موعود بیوی کرے گا اور نیز وہ صاحبِ اولاد ہوگا۔ اب ظاہر ہے کہ تزوج اور اولاد کا ذکر کرنا عام طور پر مقصود نہیں کیونکہ عام طور پر ہر ایک شادی کرتا ہے اور اولاد بھی ہوتی ہے۔ اس میں کچھ خوبی نہیں بلکہ تزوج سے مراد وہ خاص تزوج ہے جو بطور نشان ہوگا اور اولاد سے مراد وہ خاص اولاد ہے جس کی نسبت اس عاجز کی پیشگوئی موجود ہے۔ گویا اس جگہ رسول اللہﷺ ان سیہ دل منکروں کو ان کے شبہات کا جواب دے رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ یہ باتیں ضرور پوری ہوں گی۔‘‘

(انجامِ آتھم صفحہ 337 مندرجہ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 337 از مرزا قادیانی)

اس تناظر میں ضروری تھا کہ ’’مسیح موعود‘‘ کی اس مطلوبہ یعنی محمدی بیگم ہی سے اولاد ہوتی، جب اس سے شادی ہی نہیں ہوئی تو اولاد کہاں سے ہوتی؟ لہٰذا ثابت ہوگیا کہ مرزا قادیانی حضور نبی کریم ﷺ کی پیش گوئی کے مصداق بہر حال نہیں تھا۔

(35)      ’’براہین احمدیہ میں بھی اس وقت سے سترہ برس پہلے اس پیشگوئی کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ جو اس وقت میرے پر کھولا گیا ہے اور وہ یہ الہام ہے جو براہین کے صفحہ 496 میں مذکورہ ہے۔ یاادم اسکن انت و زوجک الجنۃ۔ یامریم اسکن انت و زوجک الجنۃ۔ یا احمد اسکن انت و زوجک الجنۃ۔ اس جگہ تین جگہ زوج کا لفظ آیا اور تین نام اس عاجز کے رکھے گئے۔ پہلا نام آدم۔ یہ وہ ابتدائی نام ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے اس عاجز کو روحانی وجود بخشا۔ اس وقت پہلی زوجہ کا ذکر فرمایا۔ پھر دوسری زوجہ کے وقت میں مریم نام رکھا کیونکہ اس وقت مبارک اولاد دی گئی جس کو مسیح سے مشابہت ملی اور نیز اس وقت مریم کی طرح کئی ابتلا پیش آئے جیسا کہ مریم کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے وقت یہودیوں کی بدظنیوں کا ابتلا پیش آیا اور تیسری زوجہ جس کی انتظار ہے۔ اُس کے ساتھ احمد کا لفظ شامل کیا گیا اور یہ لفظ احمد اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس وقت حمد اور تعریف ہوگی۔ یہ ایک چھپی ہوئی پیشگوئی ہے۔ جس کا سر اس وقت خدا تعالیٰ نے مجھ پر کھول دیا۔‘‘

(انجام آتھم صفحہ 54 مندرجہ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 338 از مرزا قادیانی)

مرزا قادیانی نے اس پیش گوئی کے پورا ہونے کی صورت میں اپنے مخالفین کے لیے کیا منصوبہ طے کیا تھا، ملاحظہ فرمائیں:

(36)      ’’سوچاہیے تھا کہ ہمارے نادان مخالف انجام کے منتظر رہتے اور پہلے ہی سے اپنی بدگوہری ظاہر نہ کرتے۔ بھلا جس وقت یہ سب باتیں پوری ہو جائیں گی، تو کیا اس دن یہ احمق مخالف جیتے ہی رہیں گے اور کیا اس دن یہ تمام لڑنے والے سچائی کی تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہو جائیں گے۔ ان بیوقوفوں کو کوئی بھاگنے کی جگہ نہیں رہے گی اور نہایت صفائی سے ناک کٹ جائے گی۔ اور ذلت کے سیاہ داغ ان کے منحوس چہروں کو بندروں اور سؤروں کی طرح کر دیں گے۔‘‘

(انجامِ آتھم صفحہ 337 مندرجہ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 337 از مرزا قادیانی)

مزید گوہر افشانی کرتے ہوئے کہتا ہے:

(37)      ’’اب بہتیرے جاہل اس میعاد گزرنے کے بعد ہنسی کریں گے اور اپنی بدنصیبی سے صادق کا نام کاذب رکھیں گے۔ لیکن وہ دن جلد آتے جاتے ہیں کہ جب یہ لوگ شرمندہ ہوں گے اور حق ظاہر ہوگا اور سچائی کا نور چمکے گا اور خدا تعالیٰ کے غیر متبدل وعدے پورے ہو جائیں گے۔ کیا کوئی زمین پر ہے جو ان کو روک سکے؟ بدبخت انسان بدظنی کی طرف جلدی کرتا ہے، اور حلیم طبیعت اور عمیق فکر کے ساتھ نہیں سوچتا۔

اے بدفطرتو! اپنی فطرتیں دکھلائو۔ لعنتیں بھیجو، ٹھٹھے کرو اور صادقوں کا نام کاذب اور دروغ گو رکھو۔ لیکن عنقریب دیکھو گے کہ کیا ہوتا ہے۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 399 طبع جدید از مرزا قادیانی)

مرزا قادیانی نے مزید لکھا:

(38)      ’’اور میرے رب نے مجھے مبارک دی اور فرمایا: ہم اس کے خاوند کو (بھی) ہلاک کریں گے۔ جیسا کہ ہم نے اس کے باپ کو ہلاک کیا اور اس (لڑکی) کو تیری طرف لوٹائیں گے۔ تیرے رب کی طرف سے (یہ) سچ ہے۔ پس تُو شک کرنے والوں میں سے نہ ہو۔ اور ہم اسے صرف گنتی کی مدت کے لیے تاخیر کریں گے۔ کہہ اس عرصہ کی انتظار کرو۔ اور میں (بھی) تمھارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔ اور جب خدا کا وعدہ آئے گا (تب کہا جائے گا) کیا یہ وہی ہے، جس کو تم نے جھٹلایا تھا، یا تم اندھے تھے۔‘‘

(تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات طبع چہارم صفحہ 181 از مرزا قادیانی)

(39)      ’’فَبُشْرٰی لَکَ فِی النِّکَاحِ اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ اِنَّا زَوَّجْنَاکَھَا۔ لَا مُبَدّلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ وَاِنَّا رَادُّوْھَا اِلَیْکَ۔

(ترجمہ) پس تجھے نکاح کے متعلق بشارت ہو۔ یہ بات تیرے رب کی طرف سے حق ہے۔ پس تُو شک کرنے والوں میں سے مت ہو۔ ہم نے اس کو تیرے ساتھ ملا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی باتیں ٹل نہیں سکتیں۔ اور ہم اسے تیری طرف واپس لائیں گے۔‘‘

(تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات طبع چہارم صفحہ 198 از مرزا قادیانی)

مرزا قادیانی کی اس وحی میں کسی قسم کی کوئی شرط یہ نہیں لگائی بلکہ صاف صاف کہا گیا ہے کہ اے مرزا! ہم نے محمدی بیگم کو تیری زوجہ بنا دیا ہے۔

مرزا قادیانی نے مزید کہا:

(40)      ’’اگر ہم سچے ہیں تو خدا تعالیٰ ان پیشگوئیوں کو پورا کر دے گا اور اگر یہ باتیں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہیں تو ہمارا انجام نہایت بد ہو گا اور ہرگز یہ پیشگوئیاں پوری نہیں ہوں گی۔ ربنا افتح بیننا و بین قومنا بالحق وانت خیر الفاتحین۔ اور میں بالآخر دعا کرتا ہوں کہ اے خدائے قادر و علیم! اگر آتھم کا عذاب مہلک میں گرفتار ہونا اور احمد بیگ کی دختر کلاں کا آخر اس عاجز کے نکاح میں آنا، یہ پیشگوئیاں تیری طرف سے ہیں تو ان کو ایسے طور پر ظاہر فرما جو خلق اللہ پر حجت ہو اور کور باطن حاسدوں کا منہ بند ہو جائے اور اگر اے خداوند! یہ پیشگوئیاں تیری طرف سے نہیں ہیں تو مجھے نامرادی اور ذلت کے ساتھ ہلاک کر۔ اگر میں تیری نظر میں مردود اور ملعون اور دجال ہی ہوں جیسا کہ مخالفوں نے سمجھا ہے اور تیری وہ رحمت میرے ساتھ نہیں جو تیرے بندہ ابراہیمؑ کے ساتھ اور اسحاقؑ کے ساتھ اور اسمٰعیلؑ کے ساتھ اور یعقوبؑ کے ساتھ اور موسیٰ ؑ کے ساتھ اور دائودؑ کے ساتھ اور مسیح ابن مریمؑ کے ساتھ اور خیرالانبیا محمد صلعم کے ساتھ اور اس امت کے اولیائے کرام کے ساتھ تھی، تو مجھے فنا کر ڈال اور ذلتوں کے ساتھ مجھے ہلاک کر دے اور ہمیشہ کی لعنتوں کا نشانہ بنا اور تمام دشمنوں کو خوش کر اور ان کی دعائیں قبول فرما لیکن اگر تیری رحمت میرے ساتھ ہے اور تو ہی ہے جس نے مجھ کو مخاطب کر کے کہا۔ انت وجیہ فی حضرتی اخترتک لنفسی اور تو ہی ہے جس نے مجھ کو مخاطب کر کے کہا۔ یحمدک اللّٰہ من عرشہ اور تو ہی ہے جس نے مجھ کو مخاطب کر کے کہا یاعیسی الذی لا یضاع وقتہ اور تو ہی ہے جس نے مجھ کو مخاطب کر کے کہا الیس اللّٰہ بکاف عبدہ اور تو ہی ہے جس نے مجھ کو مخاطب کر کے کہا۔ قل انی امرت و انا اول المؤمنین اور تو ہی ہے جو غالباً مجھے ہر روز کہتا رہتا ہے۔ انت معی وانا معک تو میری مدد کر اور میری حمایت کے لیے کھڑا ہو جا۔ وانی مغلوب فانتصر۔‘‘

(انوارالاسلام صفحہ 28، 29 مندرجہ روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 124، 125 از مرزا قادیانی)

مرزا قادیانی ایک عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہتا ہے:

(41)      ’’احمد بیگ کی دختر کی نسبت جو پیشگوئی ہے وہ اشتہار میں درج ہے اور ایک مشہور امر ہے۔ وہ مرزا امام الدین کی ہمشیرہ زادی ہے جو خط بنام مرزا احمد بیگ کلمہ فضل رحمانی میں ہے، وہ میرا ہے، اور سچ ہے۔ وہ عورت میرے ساتھ بیاہی نہیں گئی۔ مگر میرے ساتھ اس کا بیاہ ضرور ہوگا، جیسا کہ پیشگوئی میں درج ہے۔ وہ سلطان محمد سے بیاہی گئی، جیسا کہ پیشگوئی میں تھا۔ میں سچ کہتا ہوں کہ اسی عدالت میں جہاں ان باتوں پر جو میری طرف سے نہیں ہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہیں ہنسی کی گئی ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ عجیب اثر پڑے گا اور سب کے ندامت سے سر نیچے ہوں گے۔ پیشگوئی کے الفاظ سے صاف معلوم ہوتا ہے اور یہی پیشگوئی تھی کہ وہ دوسرے کے ساتھ بیاہی جائے گی۔ اس لڑکی کے باپ کے مرنے اور خاوند کے مرنے کی پیشگوئی شرطی تھی اور شرط توبہ اور رجوع الی اللہ کی تھی۔ لڑکی کے باپ نے توبہ نہ کی۔ اس لیے وہ بیاہ کے بعد چند مہینوں کے اندر مر گیا اور پیشگوئی کی دوسری جز پوری ہو گئی۔ اس کا خوف اس کے خاندان پر پڑا اور خصوصاً شوہر پر پڑا، جو پیشگوئی کا ایک جز تھا۔ انھوں نے توبہ کی۔ چنانچہ اس کے رشتہ داروں اور عزیزوں کے خط بھی آئے۔ اس لیے خدا تعالیٰ نے اس کو مہلت دی۔ عورت اب تک زندہ ہے۔ میرے نکاح میں وہ عورت ضرور آئے گی۔ امید کیسی یقینِ کامل ہے۔ یہ خدا کی باتیں ہیں۔ ٹلتی نہیں، ہو کر رہیں گی… مندرجہ بالا بیان دے چکنے کے بعد جب آپ کمرۂ عدالت سے باہر تشریف لائے تو فرمایا۔ ’’معلوم ہوتا ہے کہ اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا زمانہ آ گیا۔ اگر ہم ہزار روپیہ بھی خرچ کرتے اور آرزو رکھتے کہ یہ عدالت کے کاغذات میں درج ہو جاوے اور اس طرح پر تین ڈپٹی گواہ ہو جائیں تو کبھی بھی نہ ہوتا۔ یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے اور اس کی باتیں عجیب ہوتی ہیں۔ اب عدالت کے کاغذات سے کون اس کو مٹا سکے گا۔ جب یہ پیشگوئی پوری ہوگی۔ کیا ان ڈپٹیوں پر اس کا اثر نہ پڑے گا۔ ضرور ہی پڑے گا۔ جیسے لیکھرام کی پیشگوئی کی بہت شہرت ہو گئی تھی۔ اسی طرح اس کی شہرت ہو گئی ہے اور یہ بہت ہی اچھا ہوا کہ عدالت کے کاغذات میں درج ہو گئی۔‘‘

(اخبار الحکم قادیان 10 اگست 1901ء صفحہ 14 کالم 3، کتاب منظور الٰہی صفحہ 244 تا 246 از محمد منظور الٰہی قادیانی)

مرزا قادیانی نے فروری 1888ء میں محمدی بیگم سے اپنے نکاح کی پیش گوئی کی تھی جبکہ احمد بیگ نے اپنی بیٹی محمدی بیگم کا نکاح سلطان محمد سے 7 اپریل 1892ء کو کر دیا۔ (آئینہ کمالات اسلام صفحہ 280 مندرجہ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 280 از مرزا قادیانی) اس حساب سے 6 اکتوبر 1894ء کا دن مرزا سلطان محمد کی زندگی کا آخری روز ہوتا مگر وہ زندہ رہا اور 1948ء میں فوت ہوا۔ حالانکہ اس عرصہ میں وہ فرانس کی جنگ عظیم میں شریک ہوا جس میں اس کے سر میں گولی بھی لگی مگر وہ زندہ رہا۔ اس طرح مرزا قادیانی اپنی اس پیش گوئی میں دوسری پیش گوئیوں کی طرح جھوٹا نکلا۔ محمدی بیگم سے نکاح کی پیش گوئی جسے مرزا قادیانی نے اپنی صداقت کا نشان ٹھہرایا تھا، مرزا قادیانی کے جھوٹے ہونے کا واضح اور کھلا نشان ثابت ہوا۔ اس پیش گوئی کے معاملے میں ایک اور حربہ جو مرزا قادیانی نے استعمال کیا، وہ یہ تھا کہ وہ ایک ایسے جھگڑے کو جس کا تعلق ذاتی خواہشات سے تھا، ایسے رنگ میں پیش کیا جیسے یہ ایک بڑا اہم دینی معاملہ ہے اور اصل مقابلہ مرزا قادیانی اور احمد بیگ میں نہیں بلکہ اسلام اور عیسائیت کے درمیان ہے۔ مرزا قادیانی اور اس کے پیروکار اس پیش گوئی کے پورا نہ ہونے پر بے حد ذلیل و رسوا ہوئے، اور پریشانی کے عالم میں اس کی مختلف تادیلات کرتے رہے۔ اس پیش گوئی کے بارے میں مرزا قادیانی کا ایک بھی دعویٰ سچا ثابت نہ ہوا۔ مرزا سلطان محمد جس کو پیش گوئی کے مطابق اڑھائی سال کے اندر اندر مرنا تھا، وہ نکاح کے بعد 56 سال تک زندہ رہا اور 1948ء میں فوت ہوا اور محمدی بیگم جو مرزا قادیانی کے کذب کا کھلا نشان تھی، 19 نومبر 1966ء کو بحالتِ اسلام لاہور میں فوت ہوئیں۔ ان کی مرقد لاہور کے معروف اور تاریخی قبرستان میانی صاحب میں ہے۔ مرزا قادیانی کو خوش گمانی تھی کہ محمدی بیگم بیوہ ہو کر ان کے نکاح میں آجائے گی مگر اس کی یہ حسرت بھی پوری نہ ہو سکی۔ مرزا قادیانی 26 مئی 1908ء کو ہیضہ کے مرض سے آنجہانی ہوا جبکہ محمدی بیگم مرزا قادیانی کے مرنے کے چالیس سال بعد تک سلطان محمد کے نکاح میں رہی۔ اس پیش گوئی کے بارے میں مرزا قادیانی نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی مجھے یہ خبر دی کہ اگر محمدی بیگم کا نکاح میرے ساتھ نہ ہوا تو اس گھر میں تفرقہ اور مصیبتیں آئیں گی جبکہ محمدی بیگم کا نکاح سلطان محمد سے ہوا۔ اب دیکھتے ہیں کہ تفرقہ اور مصیبتیں کس گھر میں آئیں؟

-1         مرزا قادیانی کے بیٹے مرزا فضل احمد کا گھر برباد ہوا۔ یہاں تفرقہ پڑا۔ اس نے اپنے باپ کے کہنے پر مجبوراً اپنی بیوی کو طلاق دی۔

-2         مرزا قادیانی نے اپنے بیٹے سلطان احمد کو محروم الارث کیا اور اسے عاق کیا۔

-3         مرزا قادیانی نے فضل احمد اور سلطان احمد کی والدہ کو طلاق دی حالانکہ وہ پہلے سے ہی بے گھر بیٹھی ہوئی تھی اور جس کے کوئی حقوق پورے نہ ہو رہے تھے۔ یہ وہی خاتون ہے جسے مرزا بشیر احمد ایم اے ’’پھجے دی ماں‘‘ کہہ کر طنز کے تیر چلاتا ہے اور اس طرح اپنی سوتیلی والدہ کی توہین کرتا ہے۔

-4         فضل احمد کی وفاداری مرزا قادیانی کی نگاہ میں مشکوک رہی۔ انھیں ہمیشہ یہ شک رہا کہ فضل احمد کا تعلق مرزا احمد بیگ کے خاندان سے قائم ہے۔ اس ناراضی کی بنا پر مرزا قادیانی نے فضل احمد کو مرنے کے بعد بھی معاف نہ کیا بلکہ اس کی نماز جنازہ میں بھی شریک نہ ہوا۔

مذکورہ بالا تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ مرزا قادیانی نے ایک کم سن بچی (محمدی بیگم) سے بیاہ رچانے کے لیے خدا پر افترا کیا اور گھر میں بیٹھے بیٹھے پیش گوئیاں بناتا رہا، اور اسے پورا کرنے کے لیے طرح طرح کے مکر اور فریب کے جال بنتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ اپنے ہی جال میں پھنستا چلا گیا۔ اگر یہ پیش گوئیاں خدا کی طرف سے ہوتیں تو ضرور اس کا اثر ہوتا اور محمدی بیگم آخرکار اس کے نکاح میں آتی۔ اب جو لوگ گھر بیٹھے اس قسم کی پیش گوئیاں کرتے جائیں، دوسروں کو ان کے بارے میں کیا سمجھنا چاہیے۔ اس باب میں ہم کچھ نہیں کہتے، مرزا قادیانی کی ہی ایک تحریر پیش کرتے ہیں تاکہ ہر قادیانی اپنے نبی کو اس کی اپنی تحریر میں بآسانی دیکھ سکے۔ مرزا قادیانی کا فیصلہ دیکھیے:

(42)      ’’ہم ایسے مرشد کو اور ساتھ ہی ایسے مرید کو کتوں سے بدتر اور نہایت ناپاک زندگی والا خیال کرتے ہیں کہ جو اپنے گھر سے پیش گوئیاں بنا کر پھر اپنے ہاتھ سے، اپنے مکر سے، اپنے فریب سے ان کے پوری ہونے کے لیے کوشش کرے اور کراوے۔‘‘

(سراج منیر صفحہ 25 مندرجہ روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 27 از مرزا قادیانی)

اب اس تحریر کی روشنی میں اگر کوئی شخص مرزا قادیانی اور اس کے مریدوں کو ایسا ہی سمجھے تو اس پر قادیانیوں کو ناراض نہ ہونا چاہیے۔ واقعات خود اس کے اپنے تیار کردہ ہیں اور فیصلہ بھی اس کا اپنا ہے۔

قادیانی کہتے ہیں کہ محمدی بیگم کے خاوند سلطان محمد نے توبہ کر لی تھی۔ ہم انھیں مرزا قادیانی ہی کے الفاظ میں دکھاتے ہیں کہ توبہ کسے کہتے ہیں؟ مرزا قادیانی کا کہنا ہے: ’’مثلاً اگر کافر ہے تو سچا مسلمان ہو جائے اور اگر ایک جرم کا مرتکب ہے تو سچ مچ اس جرم سے دست بردار ہو جائے۔‘‘ (اشتہار 6 ستمبر 1894ء، مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 401 از مرزا قادیانی)

اس کی رو سے سلطان محمد کی توبہ یہ تھی کہ نکاح کرنے کے بعد اور اپنے خسر کی موت سے متاثر ہو کر محمدی بیگم کو طلاق دے دیتا لیکن ایسا نہیں ہوا، کیونکہ نکاح سے پہلے نہ ڈرنا تو مرزا قادیانی کی تحریر مذکورہ بالا سے بھی ثابت ہے اور نکاح سے بعد نہ ڈرنا محتاج دلیل نہیں۔ یوم نکاح 7 اپریل 1892ء سے 1948ء تک تقریباً 60 سال وہ اس عورت پر قابض و متصرف رہا اور خدا نے اسے اسی محمدی بیگم کے بطن سے مرزا قادیانی کی تحریر کے خلاف ایک درجن کے قریب اولاد بھی بخشی۔ حالانکہ مرزا قادیانی نے لکھا تھا کہ اس سے دوسرے شخص کا نکاح کرنا اس لڑکی کے لیے بابرکت نہ ہوگا۔ پس پیش گوئی کا یہ جزو بھی جھوٹا نکلا۔

محمدی بیگم کا خاوند ایک مرفہ الحال رئیس تھا۔ معقول پنشن لیتا تھا۔ اسے مرزا قادیانی کے خداوندان نعمت سے، باوجود ان کے رقیب ہونے کے، مربعے بھی عطا ہوئے۔ بعض فرزند بھی معقول روزگار پر تھے۔ غرض یہ نکاح اس کے لیے بہت بابرکت ہوا ہے اور مرزا سلطان محمد، مرزا قادیانی کے الہام ’’بستر عیش‘‘ کو غلط ثابت کر رہا تھا۔ لیکن قادیانی نہایت بھولے بن کر یا دنیا بھر کے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اور ان کو بے عقل جان کر یہی ہانکے جا رہے ہیں کہ مرزا سلطان محمد تائب ہو گیا۔ اس لیے وہ بچ گیا۔ جناب! اس کا گناہ کیا تھا اور اس کی توبہ کیا چاہیے تھی؟ کیا اس نے اس گناہ سے توبہ کی؟ اس کا قصور یہی تھا کہ وہ مرزا قادیانی کے ’’بستر عیش‘‘ کی خواہش و تمنا کے پورا ہونے میں حائل تھا۔ اگر مرزا قادیانی کی غایت تمنا نکاح نہ تھی تو الہام ’’بستر عیش‘‘ کے کیا معنی اور اس کا شان نزول اور محلِ قوع بتایا جائے کہ کیا ہے؟

مرزا قادیانی کو 1888ء سے محمدی بیگم کی چاہت پیدا ہوئی اور اس نے اس قدر تکلیف و محنت، رنج و غم اور صدمے اٹھائے جن کا سلسلہ 19 برس تک چلتا رہا۔ انتھک کوششیں اور لاتعداد الہامات، پیشگوئیاں، اشتہارات، خطوط، قاصد، ناصح، دھمکیاں، عنایات، ترغیبات، تحریصات، نوازشات، روانہ کرنے میں پیہم سعی کی اور چونکہ دل میں تسلی تھی اور اوائل میں یہ وہم و خیال بھی کبھی نہ گزرا تھا کہ یوں ناکامی ہوگی۔ اس لیے وہ قوت مردمی کے لیے بیش قیمت مرکبات بھی نوش کرتا رہا جس کے نتیجہ میں اس کی طاقت پورے پچاس مردوں سے بھی بڑھ گئی۔ مگر افسوس! جس کے ارمان میں مرا تھا، وہ محبوب ہاتھ نہ آیا اور قسمت میں بات تک کرنا بھی نصیب نہ ہوأ۔ دل کی امنگ کہ ظالم موت نے آدبوچا اور آنکھیں دیدار کو ترستی ہوئی کھلی کی کھلی رہ گئیں اور وہ راہی ملک عدم ہوا۔

آنکھیں کھلی ہوئی ہیں پس مرگ اس لیے

جانے کوئی کہ طالب دیدار مر گیا

مرزا قادیانی کے دیرینہ ساتھی اور لاہوری قادیانی جماعت کا امیر مولوی محمد علی لاہوری اس پیشگوئی کی نسبت جو رائے رکھتا ہے، وہ قابل دید و شنید ہے۔ وہ لکھتا ہے:

q          ’’یہ سچ ہے کہ مرزا صاحب نے کہا تھا کہ نکاح ہوگا اور یہ بھی سچ ہے کہ نہیں ہوا۔‘‘

(اخبار پیغام صلح لاہور 21 جنوری 1912 صفحہ 5 کالم 3)

کوئی بھی بات مسیحا تیری پوری نہ ہوئی

نامرادی میں ہوا تیرا آنا جانا