Language:

جھوٹی پیش گوئیاں چھٹی پیش گوئی ڈاکٹر عبدالحکیم

لحکیم خاں پٹیالہ (بھارت) کے سول ہسپتال میں اسسٹنٹ سرجن کے عہدے پر فائز تھے۔ وہ بڑی مشہور و معروف شخصیت کے مالک تھے۔ وہ تقریباً 25 برس تک مرزا غلام احمد قادیانی کے خاص الخاص اور جلیل القدر مریدین میں شمار ہوتے رہے۔ مرزا قادیانی کو آپ سے بڑی محبت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر صاحب پر اپنا فضل و کرم فرمایا کہ 25 سال بعد وہ مرزائیت سے تائب ہو کر دوبارہ مسلمان ہو گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے مرزائیت کے دور میں قرآن کریم کی ایک تفسیر بنام ’’تفسیر القرآن بالقرآن‘‘ لکھی۔ مرزا قادیانی کے نزدیک ڈاکٹر عبدالحکیم پٹیالوی کا کیا مقام تھا؟ درج ذیل اقتباس قابل غور ہے۔ مرزا قادیانی لکھتا ہے:

(1)’’چونکہ حدیث صحیح میں آ چکا ہے کہ مہدی موعود کے پاس ایک چھپی ہوئی کتاب ہوگی جس میں اس کے تین سو تیرہ اصحاب کا نام درج ہوگا، اس لیے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ وہ پیشگوئی آج پوری ہوگئی… اور بموجب منشاء حدیث کے یہ بیان کر دینا پہلے سے ضروری ہے کہ یہ تمام اصحاب خصلتِ صدق و صفا رکھتے ہیں اور حسب مراتب جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے بعض، بعض سے محبت اور اتقطاع الی اللہ اور سرگرمی دین میں سبقت لے گئے ہیں۔‘‘                       (انجام آتھم ضمیمہ صفحہ 41  روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 324، 325 از مرزا قادیانی)

(2)        اس کے بعد مرزا قادیانی ان تین سو تیرہ (313) صاحبان کا نام درج کرتا ہے، جن میں  159 نمبر پر ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب کا نام درج ہے۔                                                            (انجام آتھم ]ضمیمہ[ صفحہ 43 مندرجہ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 327 از مرزا قادیانی)

 نے اپنی معروف کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ میں ڈاکٹر عبدالحکیم کا تعارف ان الفاظ میں کرایا:

(3)        ’’حبّی فی اللہ عبدالحکیم خاں جوان صالح ہے۔ علامات رشد و سعادت اس کے چہرے سے نمایاں ہیں۔ زیرک اور فہیم آدمی ہے۔ انگریزی زبان میں عمدہ مہارت رکھتے ہیں۔ میں امید رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کئی خدماتِ اسلام ان کے ہاتھ سے پوری کرے۔‘‘

  (ازالہ اوہام صفحہ 809 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 537 از مرزا قادیانی)

ئیت کے بعد ڈاکٹر صاحب موصوف نے نہایت تحدی کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ خداوند عالم نے بذریعہ الہام مجھے اطلاع دی ہے کہ میں صادق ہوں اور مرزا قادیانی کاذب، میں حق پر ہوں اور مرزا قادیانی باطل پر اور میرے صادق ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ مرزا قادیانی میری زندگی میں ہی ہلاک ہوگا۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے خدا کی طرف سے یہ الہام ہوا کہ:

(4)        ’’مرزا مسرف، کذاب اور عیار ہے۔ صادق کے سامنے شریر ہلاک ہوگا۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 673 طبع جدید از مرزا قادیانی)

ڈاکٹر صاحب کا کیسا واضح اور صاف اعلان ہے کہ صادق کے سامنے شریر ہلاک ہوگا۔ اب اس میں کسی تاویل وغیرہ کی گنجائش نہیں ہے۔ جو کاذب اور شریر ہوگا، وہ پہلے مرے گا۔مرزا قادیانی نے اپنی کتاب ’’چشمہ معرفت‘‘ میں اپنے اور ڈاکٹر عبدالحکیم کے مابین اس تحریری مباہلے کو تفصیلاً بیان کیا ہے:

(5)        ’’ایسا ہی کئی اور دشمن مسلمانوں میں سے میرے مقابل پر کھڑے ہو کر ہلاک ہوئے اور ان کا نام و نشان نہ رہا۔ ہاں آخری دشمن اب ایک اور پیدا ہوا ہے جس کا نام عبدالحکیم خان ہے اور وہ ڈاکٹر ہے اور ریاست پٹیالہ کا رہنے والا ہے جس کا دعویٰ ہے کہ میں اس کی زندگی میں ہی 4 اگست 1908ء تک ہلاک ہو جائوں گا اور یہ اس کی سچائی کے لیے ایک نشان ہوگا۔ یہ شخص الہام کا دعویٰ کرتا ہے اور مجھے دجال اور کافر اور کذاب قرار دیتا ہے۔ پہلے اس نے بیعت کی اور برابر بیس برس تک میرے مریدوں اور میری جماعت میں داخل رہا۔ پھر ایک نصیحت کی وجہ سے جو میں نے محض لِلّٰہ اس کو کی تھی، مرتد ہو گیا۔۔۔۔۔مگر خدا نے اس کی پیشگوئی کے مقابل پر مجھے خبر دی کہ وہ خود عذاب میں مبتلا کیا جائے گا اور خدا اس کو ہلاک کرے گا اور میں اس کے شر سے محفوظ رہوں گا۔ سو یہ وہ مقدمہ ہے جس کا فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔ بلاشبہ یہ سچ بات ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کی نظر میں صادق ہے، خدا اس کی مدد کرے گا۔‘‘

 (چشمۂ معرفت صفحہ 322 مندرجہ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 337 از مرزا قادیانی)

ڈاکٹر موصوف ایک طویل عرصہ تک مرزا قادیانی کے مرید رہے اور اس وقت تک منصبِ صدق و صفا پر فائز رہے ۔ مگر مرزا قادیانی نے ان کو جماعت سے خارج کر دیا اور حسبِ معمول ان کے خلاف پروپیگنڈے کی باقاعدہ مہم کا آغاز کر کے ان کی کردار کشی کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ یقینا قادیانی حضرات ان ہتھکنڈوں سے بخوبی واقف ہیں۔ مگر حق چھپائے نہیں چھپتا۔ ان کا اصل قصور کیا تھا؟ مرزا قادیانی کا بیٹا مرزا بشیر احمد، ڈاکٹر صاحب کے جماعت سے اخراج کے راز پر سے پردہ یوں اٹھاتا ہے:

(6)        ’’اول یہ کہ حضرت صاحب کو اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ اطلاع دی کہ تیرا انکار کرنے والا مسلمان نہیں اور نہ صرف یہ اطلاع دی بلکہ حکم دیا کہ تو اپنے منکروں کو مسلمان نہ سمجھ۔ دوسرے یہ کہ حضرت صاحب نے عبدالحکیم خان کو جماعت سے اس واسطے خارج کیا کہ وہ غیر احمدیوں کو مسلمان کہتا تھا۔ تیسرے یہ کہ مسیح موعود کے منکروں کو مسلمان کہنے کا عقیدہ ایک خبیث عقیدہ ہے۔ چوتھے یہ کہ جو ایسا عقیدہ رکھے اس کے لیے رحمت الٰہی کا دروازہ بند ہے۔‘‘

  (کلمتہ الفصل صفحہ 125 از مرزا بشیر احمد ایم اے ابن مرزا قادیانی)

مرزا قادیانی نے ڈاکٹر عبدالحکیم کے بارے میں لکھا:

(7)        ’’اس امر سے اکثر لوگ واقف ہوں گے کہ ڈاکٹر عبدالحکیم خاں صاحب جو تخمیناً بیس برس تک میرے مریدوں میں داخل رہے، چند دنوں سے مجھ سے برگشتہ ہو کر سخت مخالف ہو گئے ہیں اور اپنے رسالہ المسیح الدجال میں میرا نام کذاب، مکار، شیطان، دجال، شریر، حرام خور رکھا ہے اور مجھے خائن اور شکم پرست اور نفس پرست اور مفتد اور مفتری اور خدا پر افترا کرنے والا قرار دیا ہے اور کوئی ایسا عیب نہیں ہے جو میرے ذمہ نہیں لگایا۔ گویا جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے، ان تمام بدیوں کا مجموعہ میرے سوا کوئی نہیں گزرا۔ اور پھر اسی پر کفایت نہیں کی بلکہ پنجاب کے بڑے بڑے شہروں کا دورہ کر کے میری عیب شماری کے بارہ میں لیکچر دیے ۔۔۔۔ اور پھر میاں عبدالحکیم صاحب نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ ہر ایک لیکچر کے ساتھ یہ پیشگوئی بھی صدہا آدمیوں میں شائع کی کہ مجھے خدا نے الہام کیا ہے کہ ’’یہ شخص تین سال کے عرصہ میں فنا ہو جائے گا اور اس کی زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ کذاب اور مفتری ہے۔ میں نے اس کی ان پیشگوئیوں پر صبر کیا۔ مگر آج جو 14 اگست 1906ء ہے، پھر اس کا خط ہمارے دوست فاضل جلیل مولوی نورالدین صاحب کے نام آیا۔ اس میں بھی میری نسبت کئی قسم کی عیب شماری اور گالیوں کے بعد لکھا ہے کہ 12 جولائی 1906ء کو خدا تعالیٰ نے اس شخص کے ہلاک ہونے کی خبر مجھے دی ہے کہ اس تاریخ سے تین برس تک ہلاک ہو جائے گا۔ ۔۔۔ اس لیے میں اس وقت دونوں پیشگوئیاں یعنی میاں عبدالحکیم خاں کی میری نسبت پیشگوئی اور اس کے مقابل پر جو خدا نے میرے پر ظاہر کیا ذیل میں لکھتا ہوں اور اس کا انصاف خدائے قادر پر چھوڑتا ہوں اور وہ یہ ہیں۔

 میاں عبدالحکیم خان صاحب اسسٹنٹ سرجن پٹیالہ کی میری نسبت پیشگوئی

جو اخویم مولوی نورالدین صاحب کی طرف اپنے خط میں لکھتے ہیں۔ ان کے اپنے الفاظ یہ ہیں:

’’مرزا کے خلاف 12 جولائی 1906ء کو یہ الہامات ہوئے ہیں۔ مرزا مسرف کذاب اور عیار ہے۔ صادق کے سامنے شر پر فنا ہو جائے گا اور اس کی میعاد تین سال بتائی گئی ہے۔‘‘

اس کے مقابل پر وہ پیشگوئی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے میاں عبدالحکیم خان صاحب اسسٹنٹ سرجن پٹیالہ کی نسبت مجھے معلوم ہوئی۔ جس کے الفاظ یہ ہیں:

’’خدا کے مقبولوں میں قبولیت کے نمونے اور علامتیں ہوتی ہیں اور وہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں۔ ان پر کوئی غالب نہیں آ سکتا۔ فرشتوں کی کھینچی جھوٹی تلوار تیرے آگے ہے پر تُو نے وقت کو نہ پہچانا نہ دیکھا نہ جانا۔ رب فرق بین صادق و کاذب۔ انت تریٰ کل مصلح و صادق۔٭٭

(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 672تا 674 طبع جدید از مرزا قادیانی)

٭          خدا تعالیٰ کا یہ فقرہ کہ وہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں۔ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے عبدالحکیم خان کے اس فقرہ کا رد ہے کہ جو مجھے کاذب اور شر پر قرار دے کر کہتا ہے کہ صادق کے سامنے شریر فنا ہو جائے گا۔ گویا میں کاذب ہوں اور وہ صادق اور وہ مرد صالح ہے اور میں شریر۔ اور خدا تعالیٰ اس کے رد میں فرماتا ہے کہ جو خدا کے خاص لوگ ہیں وہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں۔ ذلت کی موت اور ذلت کا عذاب ان کو نصیب نہیں ہوگا۔ اگر ایسا ہو تو دنیا تباہ ہو جائے اور صادق اور کاذب میں کوئی امر خارق نہ رہے۔

٭٭        یعنی اے میرے خدا صادق اور کاذب میں فرق کر کے دکھلا۔ تُو جانتا ہے کہ صادق اور مصلح کون ہے۔ اس فقرۂ الہامیہ میں عبدالحکیم خاں کے اس قول کا رد ہو جو وہ کہتا ہے کہ صادق کے سامنے شریر فنا ہو جائے گا۔ پس چونکہ وہ اپنے تئیں صادق ٹھہراتا ہے۔ خدا فرماتا ہے کہ تو صادق نہیں ہے۔ میں صادق اور کاذب میں فرق کر کے دکھلائوں گا۔‘‘

                                                                           (مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 673، 674 طبع جدید (حاشیہ) از مرزا قادیانی)

اس کے بعد مرزا قادیانی نے ڈاکٹر عبدالحکیم کے مکمل بائیکاٹ کے بارے میں اپنی جماعت کو ہدایات دیتے ہوئے ایک اشتہار میں کہا:

(8)        ’’ اب چونکہ یہ شخص اس درجہ پر میرا دشمن معلوم ہوتا ہے جیسا کہ عمرو بن ہشام آنحضرت کی عزت اور جان کا دشمن تھا، اس لیے میں اپنی تمام جماعت کو متنبہ کرتا ہوں کہ اس سے بکلی قطع تعلق کر لیں۔ اس کے ساتھ ہرگز واسطہ نہ رکھیں ورنہ ایسا شخص ہرگز میری جماعت میں سے نہیں ہوگا۔ ربنا افتح بیننا و بین قومنا بالحق و انت خیر الفاتحین۔ اٰمین۔ اٰمین۔ اٰمین۔

  (مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 667، 668 طبع جدید از مرزا قادیانی)

مرزا قادیانی نے اپنی موت سے سات دن پہلے ڈاکٹر عبدالحکیم کے بارے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جلد ہی اللہ تعالیٰ ظاہر کر دے گا کہ ہم دونوں میں سے سچا کون اور جھوٹا کون ہے؟ مرزا قادیانی اپنی دعا کے بارے میں اتنا پرُ اعتماد تھا کہ لکھتا ہے:

(9)        ’’اے لوگو! تم یقینا سمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو آخیر وقت تک مجھ سے وفا کرے گا۔ اگر تمھارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمھارے جوان اور تمھارے بوڑھے اور تمھارے چھوٹے اور تمھارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لیے دعائیں کریں یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جائیں، تب بھی خدا ہرگز تمہاری دعا نہیں سنے گا۔‘‘

(تحفہ گولڑویہ ]ضمیمہ[ صفحہ 14 مندرجہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 50 از مرزا قادیانی)

اس کے بعد مرزا قادیانی نے اللہ تعالیٰ سے دو ٹوک الفاظ میں بات کرتے ہوئے کہا:

(10)      ’’اے میرے خدا اگر تُو جانتا ہے کہ میرے دشمن سچے ہیں اور مخلص ہیں پس تُو مجھے ہلاک کر جیسا کہ تُو جھوٹوں کو ہلاک کرتا

ہے۔‘‘                                                                 (نزول المسیح صفحہ 72 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 449 از مرزا قادیانی)

اللہ تعالیٰ نے مرزا قادیانی کی مندرجہ بالا دعا کو قبول کیا اور جھوٹا سچے کی زندگی میں مر گیا۔ مرزا قادیانی 26 مئی 1908ء صبح ساڑھے دس بجے عبرتناک موت کا شکار ہوا جبکہ ڈاکٹر عبدالحکیم، مرزا قادیانی کی موت سے 11 سال بعد 1919ء میں اپنی طبعی موت سے ہمکنار ہوئے۔

ڈاکٹر عبدالحکیم کی پیش گوئی سچی نکلی اور مرزا قادیانی کی جھوٹی۔ قادیانیوں کے لیے مرزا قادیانی کی کتاب ’’چشمہ معرفت‘‘ کا صفحہ 322 مندرجہ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 337 ذلت و رسوائی کا قیامت خیز زلزلہ بنا ہوا ہے۔