Language:

بہشتی مقبرہ حرص مال کا منہ بولتا ثبوت

 بہشتی مقبرہ قادیانیوں کا ایک ایسا منافع بخش ادارہ ہے جو آنجہانی مرزا قادیانی نے اپنی نسل در نسل کے شاہانہ اخراجات کو پورا کرنے کے لیے قادیان میں قائم کیا۔اور اس میں دفن ہونے کے خواہش مند کے لیے ضروری قرار دیا گیا کہ وہ پنی جائیداد میں سے دسواں حصہ جماعت احمدیہ( جس کے ہر سیاہ سفید کا مالک مرزا قادیانی اور اب اس کی اولاد ہے )کے نام وصیت کرے گا۔ بعد میں پاکستان بننے کے بعد جب قادیانیوں نے چنیوٹ کے قریب اپنا الگ شہر ”ربوہ” بسایا تو بہشتی مقبرہ کی ایک برانچ یہاں بھی کھول دی گئی۔ معتبر ذرائع کے مطابق اب یورپ میں بھی اس کی برانچیں کھولنے پر غور ہو رہا ہے۔ اس منافع بخش کاروبار کی تفصیلات قادیانیوں کی کتب اور رسائل سے پیش ہے
بہشتی مقبرہ کی ابتدائی انوسٹ منٹ اور کاروبار میں برکت کی دعا
(1) ” ایک فرشتہ میں نے دیکھا کہ وہ زمین کو ناپ رہاہے تب ایک مقام پر اس نے پہنچ کر مجھے کہا کہ یہ تیری قبر کی جگہ ہے۔ پھر ایک جگہ مجھے ایک قبر دکھلائی گئی کہ وہ چاندی سے زیادہ چمکتی تھی اوراس کی تمام مٹی چاندی کی تھی۔ تب مجھے کہا گیا کہ یہ تیری قبر ہے اور ایک جگہ مجھے دکھلائی گئی اور اس کا نام بہشتی مقبرہ رکھا گیا اور ظاہر کیا گیا کہ وہ ان برگزیدہ جماعت کے لوگوں کی قبریں ہیں جو بہشتی ہیں۔ تب سے ہمیشہ مجھے یہ فکر رہی کہ جماعت کے لیے ایک قطعہ زمین قبرستان کی غرض سے خریدا جائے لیکن چونکہ موقع کی عمدہ زمینیں بہت قیمت سے ملتی تھیں۔ اس لیے یہ غرض مدت دراز تک معرض التوا میں رہی۔ اب اخویم مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات کے بعد جب کہ میری وفات کی نسبت بھی متواتر وحی الٰہی ہوئی، میں نے مناسب سمجھا کہ قبرستان کا جلدی انتظام کیا جائے، اس لیے میں نے اپنی ملکیت کی زمین جو ہمارے باغ کے قریب ہے جس کی قیمت ہزار روپیہ سے کم نہیں اس کام کے لیے تجویز کی اور میں دعا کرتا ہوں کہ خدا اس میں برکت دے اور اسی کو بہشتی مقبرہ بنادے۔” (الوصیت صفحہ17 مندرجہ روحانی خزائن جلد20 صفحہ316 از مرزا قادیانی)
مارکٹنگ
(2) ”فرمایا کہ نماز (فجر) سے کوئی بیس یا پچیس منٹ پیشتر میں نے خواب دیکھا کہ گویا ایک زمین خریدی ہے کہ اپنی جماعت کی میتیں وہاں دفن کیا کریں تو کہا گیا کہ اس کا نام مقبرہ بہشتی ہے۔ یعنی جو اس میں دفن ہوگا، وہ بہشتی ہوگا۔” (تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات صفحہ 360 طبع چہارم از مرزا قادیانی)
(3) ”فاوحی الی ربی واشار الی ارض وقال انھا ارض تحتھا الجنتہ فمن دفن فیھا دخل الجنتہ و انہ من الامنین۔”
ترجمہ: خدا تعالیٰ نے مجھے وحی کی اور ایک زمین کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ وہ زمین ہے جس کے نیچے جنت ہے۔ پس جو شخص اس میں دفن ہوگا، وہ جنت میں داخل ہوا اور وہ امن پانے والوں میں سے ہے۔ (حقیقة الوحی ضمیمہ الاستفتاء صفحہ 51 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 675 از مرزا قادیانی)
(4) ”پھر بعد اس کے کشفی رنگ میں وہ مقبرہ مجھے دکھلایا گیا جس کا نام خدا نے بہشتی مقبرہ رکھا ہے اور پھر الہام ہوا۔
”کل مقابر الارض لا تقابل ھذا الارض یعنی ہند کے تمام قبرستان اس زمین سے مقابلہ نہیں کرسکتے۔ یعنی اس زمین کو جو برکتیں دی گئیں، وہ برکتیں تمام پنجاب اور ہندوستان میں کسی اور قبرستان کو نہیں دی گئیں۔” (تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات صفحہ 599، 600 طبع چہارم از مرزا قادیانی)
q ابوبکر و عمر سی فضیلت:آج تمھارے لیے ابوبکر و عمر سی فضیلت حاصل کرنے کا موقع ہے اور وہ بہشتی مقام موجود ہے جہاں تم وصیت کر کے اپنے پیارے آقا المسیح الموعود کے قدموں میں دفن ہو سکتے ہو۔ اور چونکہ حدیثوں میں آیا ہے کہ مسیح موعود رسول کریمۖ کی قبر میں دفن ہوگا اس لیے تم اس مقبرہ میں دفن ہو کر خود رسول اکرمۖ کے پہلو میں دفن ہو گئے۔ اور تمھارے لیے اس خصوصیت میں ابوبکر کے ہم پلہ ہونے کا موقع ہے۔” (اعلان مندرجہ الفضل قادیان جلد سوم نمبر 99، 2 فروری 1915ئ)
مقبرہ بہشتی میںتدفین کیلئے فی قبر کی قیمت اور شرائط
(5) ”رسالہ الوصیت کے متعلق چند ضروری امرقابل اشاعت ہیں جو ذیل میں لکھے جاتے ہیں:
(1) اول یہ کہ جب تک انجمن کا رپرداز مصالح قبرستان اس امر کو شائع نہ کرے کہ قبرستان باعتبار لوازم ضروری کے من کل الوجوہ طیار ہوگیاہے اس وقت تک جائز نہ ہوگا کہ اس کی میت جس نے رسالہ الوصیت کی شرائط کی پابندی کی ہے، قبرستان میں دفن کرنے کے لیے لائی جائے بلکہ پل وغیرہ لوازم ضروریہ کاپہلے طیار ہوجانا ضروری ہوگا اور اس وقت تک میت ایک صندوق میں امانت کے طور پر کسی اور قبرستان میں رکھی جائے گی۔ (2)ہر ایک صاحب جو شرائط رسالہ الوصیت کی پابندی کا اقرار کریں ضروری ہوگا کہ وہ ایسا اقرار کم سے کم دوگواہوں کی ثبت شہادت کے ساتھ اپنے زمانہ قائمی ہوش و حواس میں انجمن کے حوالہ کریں اور تصریح سے لکھیں کہ وہ اپنی کل جائداد منقولہ و غیر منقولہ کا دسواں حصہ اشاعت اغراض سلسلہ احمدیہ کے لیے بطور وصیت یا وقف دیتے ہیں۔ اور ضروری ہوگا کہ وہ کم سے کم دو اخبار میں اس کو شائع کرادیں۔ (3)انجمن کا یہ فرض ہوگا کہ قانونی اور شرعی طور پر وصیت کردہ مضمون کی نسبت اپنی پوری تسلی کر کے وصیت کنندہ کو ایک سرٹیفکیٹ اپنے دستخط اور مہر کے ساتھ دے دیں اور جب قواعد مذکور بالا کی رو سے کوئی میت اس قبرستان میں لائی جائے تو ضروری ہوگاکہ وہ سرٹیفکیٹ انجمن کو دکھلا دیا جائے اور انجمن کی ہدایت اور موقع نمائی سے وہ میت اس موقع میں دفن کی جائے جو انجمن نے اس کے لیے تجویز کیا ہے۔ (4)اس قبرستان میں بجز کسی خاص صورت کے جو انجمن تجویز کرے، نابالغ بچے دفن نہیں ہوں گے کیونکہ وہ بہشتی ہیں اور نہ اس قبرستان میں اس میت کا کوئی دوسرا عزیز دفن ہوگا جب تک وہ اپنے طور پر کل شرائط رسالہ الوصیت کو پورا نہ کرے۔(5)ہر ایک میت جو قادیان کی زمین میں فوت نہیں ہوئی ان کو بجز صندوق قادیان میں لانا ناجائز ہوگا اور نیز ضروری ہوگا کہ کم سے کم ایک ماہ پہلے اطلا ع دیںتاکہ انجمن کو اگر اتفاقی موانع قبرستان کے متعلق پیش آگئے ہوں ، ان کو دور کر کے اجازت دے۔(6) اگر کوئی صاحب خدانخواستہ طاعون کی مرض سے فوت ہوں جنہوں نے رسالہ الوصیت کے تمام شرائط پورے کردئیے ہوں ان کی نسبت یہ ضروری حکم ہے کہ وہ دو برس تک صندوق میں رکھ کر کسی علیحدہ مکان میں امانت کے طور پردفن کیے جائیں اور دو برس کے بعد ایسے موسم میں لائے جائیں کہ اس فوت ہونے کے مقام اور قادیان میں طاعون نہ ہو۔ (7) یاد رہے کہ صرف یہ کافی نہ ہوگا کہ جائداد منقولہ اور غیر منقولہ کا دسواں حصہ دیا جائے بلکہ ضروری ہوگا کہ ایسا وصیت کرنے والا جہاں تک اس کے لیے ممکن ہے، پابند احکام اسلام ہو اور تقویٰ طہارت کے امور میں کوشش کرنے والا ہو اور مسلمان، خدا کو ایک جاننے والا اور اس کے رسولۖ پر سچا ایمان لانے والا ہو اور نیز حقوق عباد غصب کرنے والا نہ ہو۔(8) اگر کوئی صاحب دسویں حصہ جائداد کی وصیت کریں اور اتفاقاً ان کی موت ایسی ہو کہ مثلاً کسی دریا میں غرق ہو کر ان کا انتقال ہو یا کسی اور ملک میں وفات پادیں جہاں سے میت کو لانا متعذر ہو تو ان کی وصیت قائم رہے گی اور خدا تعالیٰ کے نزدیک ایسا ہی ہوگا کہ گویا وہ اسی قبرستان میں ایک کتبہ اینٹ یا پتھر پر لکھ کر نصب کیا جائے اور اس پرواقعات لکھے جائیں۔(9)انجمن جس کے ہاتھ میں ایسا روپیہ ہوگا، اس کو اختیار نہیں ہوگاکہ بجز اغراض سلسلہ احمدیہ کے کسی اور جگہ وہ روپیہ خرچ کرے۔ اور ان اغراض میں سے سب سے مقدم اشاعت اسلام ہوگی اور جائز ہوگا کہ انجمن باتفاق رائے اس روپیہ کو تجارت کے ذریعہ ترقی دے۔ (10)انجمن کے تمام ممبرایسے ہوں گے کہ جو سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوں اور پارسا طبع اور دیانتدار ہوں اور اگر آئندہ کسی کی نسبت یہ محسوس ہوگا کہ وہ پارسا طبع نہیں ہے یا یہ کہ وہ دیانت دار نہیں یا یہ کہ وہ ایک چالباز ہے اور دنیا کی ملونی اپنے اندر رکھتا ہے تو انجمن کا فرض ہوگا کہ بلاتوقف ایسے شخص کو اپنے مجمع سے خارج کرے اور اس کی جگہ کوئی اور مقرر کرے۔(11)اگر وصیتی مال کے متعلق کوئی جھگڑا پیش آئے تو اس جھگڑے کی پیروی میں جو اخراجات ہوں، وہ تمام وصیتی مالوں میں سے دئیے جائیں گے۔(12)اگر کوئی شخص وصیت کر کے پھر اپنے کسی ضعف ایمان کی وجہ سے اپنی وصیت سے منکر ہوجائے یا اس سلسلے میں روگردان ہوجائے تو گو انجمن نے قانونی طور پر اس کے مال پر قبضہ کر لیا ہو۔ پھر بھی جائز نہ ہوگا کہ وہ مال اپنے قبضہ میں رکھے، بلکہ وہ تمام مال واپس کرنا ہوگا۔ کیونکہ خدا کسی کے مال کا محتاج نہیں اور خداکے نزدیک ایسا مال مکروہ اور رد کرنے کے لائق ہے۔(13)چونکہ انجمن خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کی جانشین ہے اس لیے اس انجمن کو دنیاداری کے رنگوں سے بکلی پاک رہنا ہوگا اور اس کے تمام معاملات نہایت صاف اورانصاف پر مبنی ہونے چاہئیں۔(14)جائز ہوگا کہ اس انجمن کی تائید اور نصرت کے لیے دور دراز ملکوں میں اور انجمنیں ہوں جو اس کی ہدایت کی تابع ہوں اور جائز ہوگا کہ اگر وہ ایسے ملک میں ہوں کہ وہاں سے میت کو لانا متعذر ہے تو اسی جگہ میت کو دفن کردیں اور ثواب سے حصہ پانے کی غرض سے ایسا شخص قبل از وفات اپنے مال کے دسویں حصہ کی وصیت کرے اور اس وصیتی مال پر قبضہ کرنا اس انجمن کا کام ہوگا جواس ملک میں ہی ہے اور بہتر ہوگا کہ وہ روپیہ اسی ملک کے اغراض دینیہ کے لیے خرچ ہو اور جائز ہوگا کہ کوئی ضرورت محسوس کرکے وہ روپیہ اس انجمن کو دیا جائے جس کو ہیڈکوارٹر یعنی مرکز مقامی قادیان ہوگا۔(15)یہ ضروری ہوگا کہ مقام اس انجمن کا ہمیشہ قادیان رہے کیونکہ خدا نے اس مقام کو برکت دی ہے اور جائز ہوگا کہ وہ آئندہ ضرورتیں محسوس کر کے اس کام کے لیے کوئی کافی مکان طیار کریں۔(16)انجمن میں کم سے کم ہمیشہ ایسے دو ممبرز رہنے چاہئیں جو علم قرآن اور حدیث سے بخوبی واقف ہوں اور تحصیل علم عربی رکھتے ہوں اور سلسلہ احمدیہ کی کتابوں کو یاد رکھتے ہوں۔(17)اگر خدانخواستہ کوئی ایسا شخص جو رسالہ الوصیت کی رو سے وصیت کرتا ہے، مجذوم ہو جس کی جسمانی حالت اس لائق نہ ہو جو وہ اس قبرستان میں لایا جائے تو ایسا شخص حسب مصالح ظاہری مناسب نہیں ہے اس قبرستان میں لایا جائے لیکن اگر اپنی وصیت پر قائم ہوگا تو اس کو وہی درجہ ملے گا جیسا کہ دفن ہونے والے کو۔ (18)اگر کوئی جائداد منقولہ یا غیر منقولہ نہ رکھتا ہو اور بایں ہمہ ثابت ہو کہ وہ ایک صالح درویش ہے اور متقی اور خالص مومن ہے اور کوئی حصہ نفاق یا دنیا پرستی یا قصور اطاعت کا اس کے اندر نہ ہو تو وہ بھی میری اجازت سے یا میرے بعد انجمن کی اتفاق رائے سے اس مقبرہ میں دفن ہوسکتا ہے۔(19)اگر کوئی شخص خدا تعالےٰ کی خاص وحی سے رد کیا جائے تو گو وصیتی مال بھی پیش کرے تاہم اس قبرستان میں داخل نہیں ہوگا۔ (رسالہ الوصیت صفحہ25 تا29 مندرجہ روحانی خزائن جلد20صفحہ 323 تا327 از مرزا قادیانی)
مرزا اور اس کے اہل و عیال کے لیے کوئی فیس نہیں
(6) ”میری نسبت اور میرے اہل و عیال کی نسبت خدا نے استثنا رکھا ہے، باقی ہر ایک مرد یا عورت ان کو ان شرائط کی پابندی لازم ہوگی اور شکایت کرنے والا منافق ہوگا۔”
(الوصیت صفحہ 29 مندرجہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 327 از مرزا قادیانی)
بہشت سے اخراج، چندہ ضبط
q ”بموجب ارشاد حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ فیصلہ کیا گیا ہے کہ جو مومن وصیت کا چندہ واجب ہونے کی تاریخ کے چھ ماہ بعد تک رقم وصیت ادا نہ کرے گا۔ نہ دفتر سے اپنی معذوری بتا کر مہلت حاصل کرے گا۔ اس کی وصیت انجمن کار پرداز ان مصالح قبرستان کو منسوخ کرنے کا کامل اختیار ہے اور جس قدر روپیہ وہ وصیت میں ادا کر چکا ہے۔ اس کے واپس لینے کا موصی کو حق نہ ہوگا۔” (سیکرٹری مقبرہ بہشتی قادیان) (اخبار الفضل قادیان جلد 24 نمبر 62 مورخہ 11 ستمبر 1936ئ)
بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے کی وصیت نہ کرنے والا منافق
(7) ”حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے جو وصیت نہیں کرتا، وہ منافق ہے اور وصیت کا کم از کم چندہ 1/10 حصہ مال کا رکھا ہے جس میں عام چندہ جو وقتاً فوقتاً کرنا پڑے، شامل نہیں۔” (منہاج الطالبین صفحہ 16 مندرجہ انوار العلوم جلد 9 صفحہ 166 از مرزا بشیر الدین محمود)
مرزا قادیانی کی یہ انوسٹ منٹ بے حد کامیاب رہی ہے…… قادیانیو! ٹکٹ کٹائو! لین بنائو…… ، بہشتی مقبرہ جائو!!! انسانی کمزوریوں کو Exploit کرنے کی ایسی مثال تاریخ میں کم ہی مِلے گی۔