Language:

کادیانیت صحافیو ں کی نظر میں حصہ اول

فتنہ قادیانیت کے بارے میں صحافیوں کے ایمان افروز مشاہدات و تاثرات اور انکشافات درج کئے جاتے ہیں۔
حمید نظامی مرحوم:” غیر ممالک میں پاکستان کے ”سفارت خانے” تبلیغ مرزائیت کے اڈے اور ان کے جماعتی دفتر معلوم ہوتے ہیں”۔
مولانا اختر علی خاں:” میری اور ”زمیندار” کی خدمات دین اسلام کی ترقی اور ختم نبوت کے تحفظ کے لئے وقف ہیں۔ میں قادیانیوں کو اقلیت قرار دئیے جانے کے مطالبہ کی حمایت میں اپنی تمام قوت صرف کروں گا! اب دو ہی صورتیں ہیں : مرزائیت زندہ رہے گی یا ہم زندہ رہیں گے۔ اب تمام مسلمانوں نے مرزائیت کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس سلسلہ میں فرزندان توحید سردھڑ کی بازی لگانے سے بھی گریز نہ کریں گے۔ میں حیران ہوں کہ پاکستان کے وزراء خاموش کیوں ہیں؟ وہ واضح الفاظ میں اعلان کریں کہ وہ مسلمانوں کا مطالبہ تسلیم کریں گے یا قادیانیت کا ساتھ دیں گے؟ ان کو ایک راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ پاکستان کے وزراء اگر جمہور مسلمانوںکا مطالبہ تسلیم نہ کریں گے تو یہ ان کرسیوں پر بیٹھنے کے حقدار نہیں ہوں گے۔”اگر مر زائیت کی مخالفت کرنے سے کوئی آدمی احراری ہوجاتا ہے تو میں سب سے پہلے احراری ہوں۔”
ماسٹر تاج الدین انصاری صدر مرکزیہ مجلس احرار اسلام پاکستان اور شیخ حسام الدین ناظم اعلیٰ مجلس احرار اسلام ، ختم نبوت پر مسجد میں تقریر کریں تو انہیں جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں بند کر دیا جائے اور مرزائی وزیر خارجہ سر ظفر اللہ لاہور میں دفعہ144 کے باوجود مسلمانوں کے خلاف جلسہ عام میں اشتعال انگیز تقریر کرے تو اس سے کوئی باز پرس نہیں کی جاتی”۔
زید اے سلہری:” میری شعوری زندگی اسی تمنا میں گذری کہ قادیانی مسئلے کے بارے میں مسلمان اپنی سنگین ذمہ داری سے عہدہ برا ہوں۔ کسی آزاد مسلم معاشرے میں اس کا پنپنا ناممکن تھا۔ قادیانیوں کا مقصد اسلام کی تعلیمات کو مسخ کرنا تھا اور اس مذموم مقصد کے حصول کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات کو گھٹایا گیا”۔
مجیب الرحمان شامی:” مصیبت یہ ہے کہ اپنا ایک نبی ایجاد کرنے اور مسلمانوں سے الگ تشخص کا دعویٰ رکھنے کے باوجود ، یہ گروہ اپنے آپ کو غیر مسلم کہلوانے سے انکاری ہے۔ اس کے بہت سے مبلغ بڑی معصومیت کے ساتھ مرزا غلام احمد کی ان تصانیف سے اقتباسات شائع کر کے لوگوں کو ورغلاتے ہیں جو ان کے دعویٰ نبوت سے پہلے کی لکھی ہوئی ہیں۔ قادیانی حضرات اپنے آپ کو مظلوم اور ستم رسیدہ قرار دینے کی کوشش میں بھی لگے ہوئے ہیں۔ ہمارے جدید تعلیم یافتہ طبقوں کو خاص طور پرنشانہ بنا کر رواداری اور فراخ دلی کے نام پر ان کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی مہم چلائی جارہی ہے۔
قادیانی حضرات سے گذارش ہے کہ وہ کھلے دل کے ساتھ اپنے بزرگوںکا مطالعہ کریں اور پھر دیکھیں کہ وہ خود کہاں کھڑے ہیں؟ اپنے تمام قارئیں سے بھی میری درخواست ہے کہ وہ اس مسئلہ کا تفصیلی مطالعہ فرمائیں ، ان کو اس نتیجے پر پہنچنے میں کوئی دقت نہیں ہوگی کہ ”قادیانی مسئلہ” مولویوں کا کھڑا کیا ہوا نہیں ہے ، یہ خود قادیانیوں کا پیدا کردہ ہے۔ مسلمان انہیں اپنے آپ سے الگ سمجھنے اور الگ تھلگ قرار دینے کے جو مطالبے کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں وہ ان کے خلاف تعصب اور تنگ نظری کی بنیاد پر نہیں ہیں بلکہ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور ان پر ایمان کا اولین تقاضا ہیں”۔
”حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان ہمالیہ سے بھی بڑا پہاڑ حائل ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے الگ الگ ہیں۔ قادیانیوں کی طر ف سے اگر اسلام کا نقاب اوڑھنے کی کوشش نہ کی جائے اور وہ اپنے علیحدہ امت ہونے کو برملا تسلیم کر لیں تو ان کے خلاف مسلمانوں کے غم و غصہ کا رخ بدل سکتا ہے۔ وہ ان کے جھوٹ کی قلعی علمی انداز میں کھولنے پر سار ا زور تو صرف کرسکتے ہیں لیکن یہ نقاب پوش ڈاکو امت مسلمہ پر ڈاکہ ڈالتے ہیں اور اصلی کو نقلی قرار دے کر،نقلی کو اصلی قرار دینے لگتے ہیں۔اندھیرے کو اجالا اور اجالے کو اندھیرا کہنے پر اصرار کرتے ہیں تو جذبات مشتعل ہوتے ہیں اوران کے ساتھ وہ سلوک کرنے کے َلئے قدم بڑھ جاتے ہیں جوڈاکوئوں کے ساتھ کیا جاتا ہے”۔
نذیر ناجی:”ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اس گروہ کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔ سچی بات یہ ہے کہ اس سے پہلے زیادہ مرزائیوں کے خلاف جب کچھ کہا جاتا تھاتو مجھے اچھا نہیں لگتا تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ علماء کرام زیادتی کرتے ہیںکہ ان لوگوں کی علیحدہ سماجی پہچان اور کلیدی آسامیوں سے علیحدگی کا مطالبہ کرتے ہیں۔میرا خیال تھا کہ یہ باتیں انسانی حقوق کا حصہ ہیں اوریہ حقوق ان لوگوںکوملنے چاہئیں لیکن نوائے وقت نے ایک تصویر کر کے مجھے حیرت زدہ کردیا۔ یہ تصویر ” پروشلم پوسٹ” کے 22نومبر1985کے شمارے میںسے لی گئی ہے۔ ا س میں اسرائیل کے صدر کے سامنے دو افراد مئودب بیٹھے ہیں۔ ایک کا نام شیخ شریف احمد امینی اور دوسرے کا شیخ محمد حمید کاپر ہے۔ شیخ امینی اپنے گروہ کے نئے سربراہ شیخ حمید کا اسرائیل کے صدر سے تعارف کرا رہے ہیں اور مرزائیوں کو اسرائیل میں جو آزادیاں حاصل ہیں ان پر اسرائیلی حکومت کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔ یہ بڑی معنی خیز تصویر ہے۔
جن لوگوں کو اسرائیل کی اصلیت معلوم ہے۔ اس کا اندازہ صرف وہی لگا سکتے ہیں کہ ایک ایسے گروہ کے ساتھ وہاں کی حکومت کے اتنے قریبی اور گہرے تعلقات کا مطلب کیا ہوسکتا ہے جس کے رخصت ہونیوالے سربراہ کو اسرائیل کا صدر ذاتی طور پر الوداع کہے اور آنے والے کا خیر مقدم کرے۔ اسرائیلی حکومت دنیا کا سب سے بڑا مافیا ہے ۔ اس کا ہدف دنیا بھر کے مسلمان ہیں۔ یہ محض ایک ریاست نہیں ، ایک مرکز ہے۔ صیہونیت کا مرکز، عالمی سرمایا دارانہ تنظیموں کا مرکز ، افریقہ اور ایشیاء کی غریب اور کمزور قوموں کے خلاف سازشوں کا مرکز، امریکہ اور مغربی یورپ کے ترقی یافتہ ملکوں کے حکمران طبقوں کو اپنے زیر اثر رکھنے کیلئے منصوبہ بندی کا مرکز اور بدترین عالمی دہشت گردی کا مرکز۔ یہ محض الزام تراشی نہیں بلکہ وہ حقائق ہیں جنہیں امریکہ اور یورپ کے اہل دانش بھی تسلیم کرتے ہیں۔ایک ایسے ملک کی حکومت کے ساتھ اتنے قریبی، خوشگوار اور دوستانہ تعلقات رکھنے والا گروہ مسلمانوں کا دوست ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ نہیں کہ میں مرزائیوں پر شک کرتا ہوں ، میں تو اسرائیلیوں پر یقین رکھتا ہوں۔ وہ اپنے مفاد کے سوا کسی پر مہربان نہیں ہوتے۔ یہ سوچنا مسلمانوں کا کام ہے کہ ان لوگوں سے اسرائیل کیا مفادات حاصل کر رہا ہوگا؟ قارئین یقینا اس بات سے باخبر ہوں گے کہ اسرائیل پاکستان کو اپنے بنیادی دشمنوں کی صف میں شمار کرتا ہے۔ اسرائیل کے فوجی ماہرین نے اس موضوع پر بہت کام کیا ہے کہ پاکستان سے اسے کیا کیا خطرات پیش آسکتے ہیں اور ان خطرات کو کم کرنے کے لئے اسرائیل کو کیا کرنا چاہئے؟ دنیا بھر کے یہودی ادارے پاکستان میں عدم استحکام کے لئے کام کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی حکومت جب کسی گروہ کی پذیرائی کرتی ہے تو کیا اس کے عوض وہ کچھ حاصل نہیں کر رہی ہوگی؟ یہ امر شک وشبہ کی گنجائش سے بالا ہے کہ یہودی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا۔
علمائے کرام تو مرزائیوں کو کلیدی عہدوں سے الگ کرنے کے مطالبات ، عقائد کے حوالے سے کرتے ہیں لیکن پاکستان کے دفاع کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ان لوگوں سے چوکس رہا جائے۔ یہ کچھ بھی نہ کرتے ہوں تو بھی ان سے محتاط رہنے کی یہی وجہ کافی ہے کہ ان پر اسرائیل اور بھارت کی حکومتیں مہربان ہیں۔ پاکستان میں ان کی تنظیم کا طریقہ پر اسرار ہے۔ یہ لوگ جس ملک میں بھی ہوں، ایک مرکزکے تابع ہوتے ہیں اور اس کی ہدایات کو ہر چیز پر ترجیح دیتے ہیں۔ آپ کو میرے قلم سے یہ باتیں کچھ عجیب لگیں گی لیکن یاد کریں کہ اگر اس صدی کے اوائل میں فلسطین کے مسلمانوں نے اس طرح سوچ لیا ہوتا ، جس طرح میں آج مرزائیوں کے بارے میں لکھ رہا ہوں تو شاید وہ اس طرح جلا وطن نہ ہوتے۔ وہ اکثریت میں تھے اور غافل تھے۔ یہودیوں نے آہستہ آہستہ معاشرے کے ہر شعبے میں اپنی جڑیں پھیلائیں اور پھر اقلیت ہونے کے باوجود ایک پوری قوم کا قتل عام شروع کردیا۔ شروع میں کوئی خدشہ ظاہر کرتا تو وہ اتنا ہی معمولی نظر آتا، جتنا آج آپ کو میری بات نظر آئے گی۔ ہمارے روشن خیال اور ترقی پسند لوگ اس قسم کی باتوں کو فیشن کے خلاف سمجھتے ہیں۔ فلسطین کے دانشوروں نے بھی یہی سمجھا ہوگا ۔ ان کی قوم کا انجام سامنے ہے۔ جو گروہ اسرائیل کا دوست ہے۔ اسے معمولی اور کمزور تصورنہیں کرنا چاہئے۔ اس کا مطلب ہے کہ دنیا کی سب سے منظم مالی، فوجی اور ذرائع ابلاغ پر قابض قوتیں ان کے ساتھ ہیں۔ یہ قوتیں پاکستانی عوام کی دشمن ہیں۔ جب وہ اس ملک کے ایک گروہ کی سرپرستی کررہی ہوںتو یہ جاننے کے لئے زیادہ عقل کی ضرورت نہیں کہ وہ گروہ کیا خدمات انجام دے رہا ہوگا”؟
اثر چوہان:” قادیانیوں نے اپنی ”نبوت” تو چلا لی مگر قادیانی ترجمان اخبار ”الفضل” نہ چلاسکے۔ بعد میں جب اس جماعت کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا اورامام جماعت مرزا طاہر قادیانی فرار ہو کرلندن چلا گیا تومعلوم ہوا کہ ”نبوت ” بھی نہ چل سکی”۔
اقتدار احمد( ایڈیٹر ہفت روزہ ” ندا خلافت”):”بلی کے بھاگوں تو کبھی کبھار چھینکا ٹوٹ جاتا ہے لیکن قادیانیوں کے بھاگوں پاکستان انشاء اللہ کبھی نہیں ٹوٹے گا۔ ان کے موجودہ سربراہ بھی برصغیر کے جڑنے کی آرزو لئے اپنے پیش روئوں کی طرح نامراد ہی مریں گے”۔
محمد صلاح الدین (مدیر ہفت روزہ تکبیر، کراچی):” میں مولوی ہوں نہ مولانا، مفتی نہ کوئی عالم دین، لیکن بحمد اللہ خدا کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ادنیٰ امتی کی حیثیت سے جھوٹی نبوت کے کسی بھی دعوے کی تار پود بکھیرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہوں۔ مجھے قادیانی مذہب کے جھوٹے ہونے پر مباہلہ یا مناظرہ کا چیلنج قبول ہے۔ علمی چیلنج دینے والے کی حیثیت داعی کی اور جسے چیلنج دیا جائے اس کی حیثیت مدعو کی ہوتی ہے ۔ آپ (مرزا طاہر احمد) میدان مباہلہ یا مقام مناظرہ کا تعین کر لیں ، تاریخ اور وقت مقرر کردیں،میرے اخراجات آمدورفت کا بندوبست فرمادیں۔ یہ ممکن نہ ہوسکے تو مجھے مطلع کردیں۔ میرے دینی بھائی اس کا بندوبست کردیں گے۔ میں حاضر ہو کر انشاء اللہ آپ پر آپ کی اصل حقیقت واضح کردوں گا اور سچی اور آخری نبوت پر بتوفیق الٰہی ، ایسی گواہی دوں گا کہ آپ کی جعلی، ظلی یا بروزی نبوت، منطق و استدلال کی عدالت میں اپنا مقدمہ چند منٹ بھی قائم و برقرار نہ رکھ سکے گی۔ پھر جو بھی نزول عذاب کا مستحق ہوگا ، خداکی پکڑسے بچ کر نہ جائے گا کیونکہ ان بطش ربک لشدید (بیشک تیرے رب کی پکڑ سخت ہے)”