Language:

کادیانیت عدلیہ کی نظر میں حصہ دوم

فتنہ قادیانیت کے بارے میں عدلیہ کے ایمان افروز مشاہدات و تاثرات اور انکشافات درج کئے جاتے ہیں۔

جسٹس ملک غلام علی صاحب (وفاقی شرعی عدالت پاکستان)

’’قادیانیت ایک بارودی سرنگ ہے جسے اسلام دشمن طاقتوںنے بڑی ہنرمندی کے ساتھ اس کی دیواروں کے نیچے بچھا رکھا ہے‘‘۔

جسٹس خلیل الرحمان خان صاحب:

23مارچ1989ء کو قادیانیوں کی تنظیم سوسال کی ہوگئی تھی۔ اس موقع پر صد سالہ جشن منانے پر حکومت کی طرف سے عائد پابندی کے خلاف کی گئی رٹ مسترد کرتے ہوئے جسٹس خلیل الرحمان خان نے سرکاری اور عوام کے وکلاء کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’قادیانیوں کو نہ صرف اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے اور اس پر عمل کرنے کا پورا اختیار ہے بلکہ انہیں ہندوئوں، سکھوں، پارسیوںاور دوسری مذہبی اقلیتوں کی طرح پوری آزادی حاصل ہے لیکن قادیانیوں نے خود کو مسلمان قرار دے کر اور کلمہ طیبہ اور شعائر اسلام کو اپنا کر، جو اسلام کی بنیاد ہے، خود ہی  اپنے لئے مشکل صورت حاصل پیدا کی ہے کیونکہ اگر قادیانی آئینی تقاضوں کے مطابق زندگی گزاریں اور خود کو مسلمانوں سے الگ مت سمجھیں اور عمل کریں تو اس سے کوئی ناخوشگوار بات نہیں ہوگی۔ آئین سے ان کی وفاداری اور الگ امت کی حیثیت ، ان کی شناخت، ان کی سلامتی اور بہبود کی ضامن ہوگی۔ انہیں اسلام کو ہائی جیک کرنے کی کس طرح اجازت دی جاسکتی ہے؟ قادیانی جو عقیدہ بھی اختیار کریں۔ یہ ان کا مسئلہ ہے لیکن وہ مسلمانوں کے عقیدے کو کیوں خراب کرنا چاہتے ہیں؟ مسلمان اپنے عقیدے کے تحفظ کے لئے اگر کوئی اقدام کرتے ہیں تو اس سے قادیانیوں کو پریشان نہیں ہونا چاہئے‘‘۔

جسٹس گل محمد خاں صاحب:’’مرزائی اسلام کو اپنا مذہب ظاہر نہیں کرسکتے‘‘۔

جسٹس امیر الملک مینگل (بلوچستان ہائی کورٹ)

’’میں نے تمام بحث اور دلائل سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ دفعہ 298-بی تعزیرات پاکستان اور دفعہ 298-سی تعزیرات پاکستان، دو آزاد دفعات ہیں، جو الگ الگ جرائم کا تعین کرتی ہیں۔ دفعہ298-بی کا ابتداً یہ منشا تھا کہ مقدس ہستیوں ، ناموں ، القابوں اور مقامات وغیرہ کو بے جا استعمال ہونے سے محفوظ رکھا جائے لیکن دفعہ 298-سی کسی قادیانی کو اس کے طریقہ کار اور عام طرز کے لئے اس صورت میں سزا دہی کا مستوجب قرار دیتی ہے، جب وہ بلا واسطہ یا بالواسطہ اپنے آپ کو مسلم ظاہر کرتا ہے یا اپنے عقیدے کو اسلام کہتا یا اس کا حوالہ دیتا ہے یا اپنے عقیدہ کی تبلیغ یا نشرو اشاعت کرتا ہے یا کسی نظر آنے والی قائم مقامی کے ذریعے یا کسی بھی اور طریقے سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکاتا ہو۔ اس طرح یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دفعہ298-سی تعزیرات پاکستان کے الفاظ میں، مجلس قانون ساز کا منشا دریافت کرنے کیلئے، کوئی الہام موجود نہیں ہے‘‘۔

جسٹس محمد رفیق تارڑ صاحب:’’مرزا قادیانی کے جو پیروکار اپنے لئے محمد رسول اللہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں وہ حضرت نبی آخرالزمانؐ کی بے ادبی کے مرتکب ہوتے ہیں‘‘۔

جسٹس خلیل الرحمان رمدے:

’’قادیانی ایک منصوبے کے تحت مسلمانوں کے جذبات مشتعل کرکے قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ اعلیٰ عدالتوںکے فیصلے کے مطابق بار بار جرم کرنے والے فرد کی ضمانت منظور نہیں کی جاسکتی‘‘۔

جسٹس میاں نذیر اختر صاحب:

مرزا غلام احمد قادیانی کے قادیانی اور لاہوری پیروکار خود کو مسلمان ظاہر کرنے کے لئے شعائر اسلام کا استعمال نہیں کرسکتے۔ قادیانی ایک علیحدہ گروہ ہیں اور ان کا اسلام اور امت مسلمہ سے کوئی تعلق ہیں کیونکہ مرزا قادیانی نے اسلام کی تعلیمات کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے نبی ہونے کے بارے میں جھوٹا دعویٰ کیا اور اعلان کیا کہ اس کی ’’نبوت‘‘ پر یقین نہ رکھنے والے سب کافر ہیں۔ اس نے یہ دعویٰ کر کے تو انتہا کردی کہ وہ آدمؑ، ابراہیمؑ، موسیٰؑ، عیسیٰؑ اور حتیٰ کہ محمدؐ ہے۔ (نعوذ باللہ من ذلک)

مرزا قادیانی نے نبی پاک حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ قرآن مجید کی آیات کو اپنے آپ سے منسوب کرنے کی ناپاک جسارت کی۔ مرزائی کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے واضح طور پر لفظ ’’محمد‘‘ سے مراد ’’مرزا غلام احمد قادیانی‘‘ ہی لیتے ہیں۔ اسی طرح وہ مرزا قادیانی پر درود بھیجتے ہیں۔ گویا قادیانی لوگ جب کلمہ طیبہ اور درود پڑھتے ہیں تو ان کے قلب و ذہن پر مکمل طور پر مرزا قادیانی کا تصور ہوتا ہے اوراس طرح کرتے ہوئے وہ نبی اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس نام کی تحقیر کر رہے ہوتے ہیں‘‘۔

جسٹس میاں محبوب احمد صاحب چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ لاہور:

’’ختم نبوت تقدیر کائنات پر وہ مہر کامل ہے جس کی پاسبانی کا فریضہ اس امت کے سپرد کیا گیا ہے۔ ہم اپنے قلم سے ، اپنے عمل سے، اپنے آنسوئوں سے، اپنی محبت کے چراغوں سے اس کی پاسبانی کا حق ادا کررہے ہیں۔ اسی فریضہ کی ادائیگی سے اس دنیا کا جمال اور وقار وابستہ ہے جسے اسلامی دنیا کہتے ہیں۔

آج جبکہ فتنوں کا دروازہ کھل چکا ہے اور بلائیں ختم نبوت کے تصور پر بھیس بدل کر حملہ آور ہو رہی ہیں۔ اس کی حفاظت کے لئے سینہ سپر ہو جانا چاہیے اور مجھے یقین ہے کہ اس سعادت کے حصول میں پاکستان صف اول میں ہوگا اور میدان حشر میں انشاء اللہ جب آقائے دو جہاںؐ یہ سوال فرمائیں گے کہ جب میری ناموس زد پر تھی تو تم نے کیا کردار ادا کیا تھا؟ اس قت اہل پاکستان اپنے الفاظ کا نذرانہ بھی پیش کریں گے اور اپنے لہو کا تحفہ بھی پیش کریں گے۔ خدا سے دعا ہے کہ اس فہرست عاشقان میں کہیں آپ کا نام بھی درج ہو۔ کہیں اس عاجز کا نام بھی درج ہو۔ یہی وہ عظیم نعمت ہے جو جھولی پھیلا کر خدا کی بارگاہ سے طلب کی جاسکتی ہے اور بیشک وہ سمیع و بصیر ہے۔

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں   یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں‘‘

جسٹس کیانی صاحب:

مرزا ناصر نے ربوہ میں تقریر کے دوران انکشاف کیا کہ یہاں سبزہ نام کی کوئی چیز نہ تھی ہم نے دس دس فٹ گہرے گڑھے کھود کر باہر سے مٹی لاکر تناور درخت اگا لئے۔ جسٹس کیانی کی جب تقریر کی باری آئی تو انہوں نے مرزا ناصر کی اس بات کا حوالہ دے کرکہا کہ میں مرزا ناصر کی محنت کی داد دیتا ہوں۔ پھر جسٹس کیانی نے ہلکے پھلکے انداز میں فرمایا کہ ’’آپ لوگ واقعی قابل داد ہیں۔ آپ نے جب ختم نبوت جیسی سنگلاخ سرزمین میں نبی(کذاب ودجال) کھڑا کر کے دکھا دیا تو ربوہ کی پتھریلی زمین میں درخت کھڑا کرنا آپ کے لئے کونسا مشکل کام تھا‘‘۔

جسٹس جاوید اقبال صاحب:

جسٹس جاوید اقبال صاحب اپنے والد کے حوالے سے بتایا کہ ’’علامہ اقبالؒ کے نزدیک قبل از اسلام مجوسیت کے جدید احیاء نے جن دو تحریکوں کو جنم دیا، ان میں ایک بہائیت ہے دوسری قادیانیت۔ بہایت اس اعتبار سے زیادہ دیانت پر مبنی ہے کہ وہ اسلام سے اعلانیہ علیحدگی کا راستہ اختیار کرتی ہے لیکن قادیانیت اسلام کے بعض اہم ظواہر کو برقرار رکھتے ہوئے اس کی روح اور نصب العین سے انحراف کرتی ہے۔ اقبالؒ کے بیان کے مطابق ’’بروز‘‘ ، ’’حلول‘‘ اور ’’ظل‘‘ کی اصطلاحات مسلم ایران میں اسلام سے منحرف تحریکوں نے اختراع کیں اور ’’مسیح موعود‘‘ کی اصطلاح بھی مسلم دینی شعور کی تخلیق نہیں ہے۔ آخر میں فرماتے ہیں کہ ہندوستان کے حاکموں کے لئے بہترین راستہ یہی ہے کہ قادیانیوں کو ایک علیحدہ مذہبی فرقہ قرار دے‘‘۔