Language:

قادیانیت نے اسلام کو کیا عطا کیا – مولانہ سید علی الحسن ندوی

’’ہم کو ایک عملی اور حقیقت پسند انسان کے نقطہ نظر سے تحریک قادیانیت کا تاریخی جائزہ لینا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے اسلام کی تاریخ اصلاح و تجدید میں کون سا کارنامہ انجام دیا اور عالم اسلام کی جدید نسل کو کیا عطاء کیا۔ نصف صدی کی اس پرشور اور ہنگامہ خیز مدت کا حاصل کیا ہے؟ تحریک کے بانی نے، اسلامی مسائل اور متنازع فیہ امور پر، جو ایک وسیع و مہیب کتب خانہ یادگار چھوڑا ہے اور جو تقریباً 70 برس سے موضوع بحث بنا ہوا ہے، اس کا خلاصہ اور ماحصل کیا ہے؟ قادیانیت عصر جدید کے لیے کیا پیغام رکھتی ہے؟

ان سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لیے پہلے ہم کو اس عالم اسلامی پر ایک نظر ڈالنی چاہیے، جس میں اس تحریک کا ظہور ہوا اور یہ دیکھنا چاہیے کہ انیسویں صدی کے نصف آخر میں اس کی کیا حالت تھی اور اس کے کیا حقیقی مسائل و مشکلات تھے؟

اس عہد کا سب سے بڑا واقعہ، جس کو کوئی مورخ اور کوئی مصلح نظر انداز نہیں کر سکتا، یہ تھا کہ اسی زمانہ میں یورپ نے عالم اسلام پر بالعموم اور ہندوستان پر بالخصوص یورش کی تھی۔ اس کے جلو میں ،جو نظام تعلیم تھا، وہ خدا پرستی اور خدا شناسی کی روح سے عاری تھا۔ جو تہذیب تھی، وہ الحاد اور نفس پرستی سے معمور تھی۔ عالم اسلام، ایمان، علم اور مادی طاقت میں کمزور ہو جانے کی وجہ سے اس نوخیز و مسلح مغربی طاقت کا آسانی سے شکار ہو گیا۔ اس وقت مذہب میں (جس کی نمائندگی کے لیے صرف اسلام ہی میدان میں تھا) اور یورپ کے ملحدانہ اور مادہ پرست تہذیب میں تصادم ہوا۔ اس تصادم نے ایسے نئے سیاسی، تمدنی اور اجتماعی مسائل پیدا کر دیے جن کو صرف طاقتور ایمان، راسخ و غیر متزلزل عقیدہ و یقین، وسیع اور عمیق علم، غیر مشکوک اعتماد و استقامت ہی سے حل کیا جا سکتا تھا۔ اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک طاقتور علمی و روحانی شخصیت کی ضرورت تھی، جو عالم اسلام میں روح جہاد اور مسلمانوں میں اتحاد پیدا کر دے، جو اپنی ایمانی قوت اور دماغی صلاحیت سے دین میں ادنیٰ تحریف و ترمیم کے بغیر اسلام کے ابدی پیغام اور عصر حاضر کی بے چین روح کے درمیان مصالحت و رفاقت پیدا کر سکے اور شوخ و پرجوش مغرب سے آنکھیں ملا سکے۔

دوسری طرف عالم اسلام مختلف دینی و اخلاقی بیماریوں اور کمزوریوں کا شکار تھا۔ اس کے چہرے کا سب سے بڑا داغ وہ شرک بھی تھا جو اس کے گوشہ گوشہ میں پایا جاتا تھا۔ قبریں اور تعزئیے بے محابا پج رہے تھے۔ غیر اللہ کے نام کی صاف صاف دہائی دی جاتی تھی، بدعات کا گھر گھر چرچا تھا، خرافات اور توہمات کا دور دورہ تھا۔ یہ صورتحال ایک ایسے دینی مصلح اور داعی کا تقاضا کر رہی تھی، جو اسلامی معاشرہ کے اندر جاہلیت کے اثرات کا مقابلہ اور مسلمانوں کے گھروں میں اس کا تعاقب کرے، جو پوری وضاحت اور جرأت کے ساتھ توحید و سنت کی دعوت اور اپنی پوری قوت کے ساتھ اَلَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ  کا نعرہ بلند کرے۔

اسی کے ساتھ بیرونی حکومت اور مادہ پرست تہذیب کے اثر سے مسلمانوں میں ایک خطرناک اجتماعی انتشار اور افسوس ناک اخلاقی زوال رونما تھا۔ اخلاقی انحطاط فسق و فجور کی حد تک، تعیش و اسراف نفس پرستی کی حد تک، حکومت و اہل حکومت کی مرعوبیت ذہنی غلامی اور ذلت کی حد تک، مغربی تہذیب کی نقالی اور حکمران قوم (انگریز) کی تقلید کفر کی حد تک پہنچ رہی تھی۔ اس وقت ایک ایسے مصلح کی ضرورت تھی جو اس اخلاقی و ذہنی انحطاط کی بڑھتی ہوئی رو کو رو کے اور اس خطرناک رجحان کا مقابلہ کرے جو محکومیت و غلامی کے اس دور میں پیدا ہو گیا تھا۔

تعلیمی و علمی حیثیت سے حالت یہ تھی کہ عوام اور محنت کش طبقہ دین کے مبادی و اولیات سے ناواقف اور دین کے فرائض سے بھی غافل تھا۔ جدید تعلیم یافتہ طبقہ شریعت اسلامی، تاریخ اسلام اور اپنے ماضی سے بے خبر اور اسلام کے مستقبل سے مایوس تھا۔ اسلامی علوم روبہ زوال اور پرانے تعلیمی مرکز، عالم نزع میں تھے۔ اس وقت ایک طاقتور تعلیمی تحریک اور دعوت کی ضرورت تھی۔ نئے مکاتب و مدارس کے قیام، نئی اور موثر اسلامی تصنیفات اور نئے سلسلہ نشر و اشاعت کی ضرورت تھی، جو امت کے مختلف طبقوں میں مذہبی واقفیت، دینی شعور اور ذہنی اطمینان پیدا کرے۔

اس سب کے علاوہ اور اس سب سے بڑھ کر عالم اسلام کی سب سے بڑی ضرورت تھی کہ انبیاء علیہم السلام کے طریق دعوت کے مطابق اس امت کو ایمان اور عمل صالح اور اس صحیح اسلامی زندگی اور سیرت کی دعوت دی جائے جس پر اللہ تعالیٰ نے فتح و نصرت، دشمنوں پر غلبہ اور دین و دنیا میں فلاح و سعادت اور سربلندی کا وعدہ فرمایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عالم اسلام کی ضرورت دین جدید نہیں، ایمان جدید ہے۔ کسی دور میں بھی اس کو نئے دین اور نئے پیغمبر کی ضرورت نہیں تھی۔ دین کے ان ابدی حقائق و عقائد اور تعلیمات پر نئے ایمان اور نئے جوش کی ضرورت تھی جس سے زمانہ کے نئے فتنوں اور زندگی کی نئی ترغیبات کا مقابلہ کیا جا سکے۔

زندگی کے ان شعبوں اور ضرورتوں کے لیے، جن کا اوپر تذکرہ ہوا، عالم اسلام کے مختلف گوشوں میں مختلف شخصیتیں اور جماعتیں سامنے آئیں۔ جنھوں نے بغیر کسی دعوے اور بغیر امت سازی کی کوشش کے، وقت کی ان ضرورتوں اور مطالبوں کو پورا کیا اور مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد کو متاثر کیا۔ انھوں نے کسی نئے مذہب اور کسی نئی نبوت کا علم بلند نہیں کیا اور نہ مسلمانوں میں کوئی تفریق اور انتشار پیدا کیا۔ انھوں نے اپنی صلاحیتوں اور قوتوں کو کسی بے نتیجہ کام میں ضائع نہیں کیا۔ ان کا نفع ہر ضرر سے خالی، ان کی دعوت ہر خطرے سے پاک اور ان کا کام ہر شبہ سے بالاتر ہے۔ عالم اسلام نے اپنا کچھ کھوئے بغیر ان سے نفع حاصل کیا اور مسلمان ان کی مخلصانہ خدمات کے ہمیشہ شکر گزار رہیں گے۔

ایک ایسے نازک وقت میں ،عالم اسلام کے نازک ترین مقام ہندوستان میں، جو ذہنی و سیاسی کشمکش کا خاص میدان بنا ہوا تھا، مرزا غلام احمد صاحب اپنی دعوت اور تحریک کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ وہ عالم اسلام کے حقیقی مسائل و مشکلات اور وقت کے اصلاحی تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی تمام ذہنی صلاحیتیں، علم و قلم کی طاقت ایک ہی مسئلہ پر مرکوز کر دیتے ہیں۔ وہ مسئلہ کیا ہے؟ وفات مسیح اور مسیح موعود کا دعویٰ۔ اس مسئلہ سے جو کچھ وقت بچتا ہے وہ حرمت جہاد اور حکومت وقت کی وفاداری اور اخلاص کی دعوت کی نذر ہو جاتا ہے۔ ربع صدی کی تصنیفی و علمی زندگی اور جدوجہد کا موضوع اور ان کی دلچسپیوں کا مرکز یہی مسئلہ اور اس کے سلسلہ میں مخالفین سے نبرد آزمائی اور معرکہ آرائی ہے۔ اگر ان کی تصنیفات سے ان مضامین کو خارج کر دیا جائے، جو حیات مسیح و نزول مسیح اور ان کے دعاوی اور اس سے پیدا ہونے والے مباحث سے متعلق ہیں، تو ان کے تصنیفی کارنامہ کی ساری اہمیت اور وسعت ختم ہو جائے گی۔

پھر یہ بھی دیکھئے کہ اس عالم اسلام میں جو پہلے سے مذہبی اختلافات اور دینی نزاعات کا شکار تھا اور جس میں اب کسی نزاع کے برداشت کرنے کی طاقت نہ تھی، وہ نئی نبوت کا علم بلند کرتے ہیں اور جو اس پر ایمان نہ لائے، اس کی تکفیر کرتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے اور مسلمانوں کے درمیان ایک آہنی اور ناقابل عبور دیوار کھڑی کر دیتے ہیں، جس کے ایک جانب ان کے متبعین کی ایک چھوٹی سی جماعت ہے جو چند ہزار افراد پر مشتمل ہے، دوسری طرف پورا عالم اسلام ہے جو مراکش سے چین تک پھیلا ہوا ہے اور جس میں عظیم ترین افراد، صالح ترین جماعتیں اور مفید ترین ادارے ہیں۔ اسی طرح انھوں نے عالم اسلام میں بلا ضرورت ایسا انتشار اور ایک ایسی نئی تقسیم پیدا کر دی، جس نے مسلمانوں کی مشکلات میں ایک نیا اضافہ اور عصر حاضر کے مسائل میں نئی پیچیدگی پیدا کر دی۔

مرزا غلام احمد صاحب نے درحقیقت اسلام کے علمی و دینی ذخیرہ میں کوئی ایسا اضافہ نہیں کیا، جس کے لیے اصلاح و تجدید کی تاریخ ان کی معترف اور مسلمانوں کی نسل جدید ان کی شکرگزار ہو۔ انھوں نے نہ تو کوئی عمومی دینی خدمت انجام دی، جس کا نفع دنیا کے سارے مسلمانوں کو پہنچے، نہ وقت کے جدید مسائل میں سے کسی مسئلہ کو حل کیا۔ نہ ان کی تحریک موجودہ انسانی تہذیب کے لیے جو سخت مشکلات اور موت و حیات کی کشمکش سے دوچار ہے، کوئی پیغام رکھتی ہے۔ نہ اس نے یورپ اور ہندوستان کے اندر اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس کی جدوجہد کا تمام تر میدان، مسلمانوں کے اندر ہے اور اس کا نتیجہ صرف ذہنی انتشار اور غیر ضروری مذہبی کشمکش ہے، جو اس نے اسلامی معاشرے میں پیدا کر دی ہے۔ وہ اگر کسی چیز میں کامیاب کہے جا سکتے ہیں تو صرف اس میں کہ انھوں نے اپنے خاندان اور ورثاء کے لیے سر آغا خان کے اسلاف کی طرح، پیشوائی کی ایک مسند اور ایک دینی ریاست پیدا کر دی ہے، جس کے اندر ان کو روحانی سیادت اور مادی عیش و عشرت حاصل ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر ہندوستان میں وہ ذہنی انتشار نہ ہوتا، جس کا پنجاب خاص میدان تھا، اگر انگریزی حکومت کے اثر سے اسلامی معاشرہ میں اسلامی کی بنیادیں متزلزل اور اسلامی ذہن مائوف نہ ہو چکا ہوتا، اگر مسلمانوں کی نئی نسل دینی تعلیمات اور اسلام کی اصلاح و تجدیدی شخصیتوں اور نیابت انبیاء اور عظمت انسانی کی حقیقی صفات سے اتنی بے خبر نہ ہوتی اور آخر میں حکومت وقت کی پشت پناہی اور سرپرستی نہ ہوتی، تو یہ تحریک جس کی بنیاد زیادہ تر الہامات، خوابوں، تاویلات اور بے کیف و بے مغز نکتہ آفرینیوں پر ہے اور جو عصر جدید کے لیے کوئی نیا اخلاقی و روحانی پیغام اور مسائل حاضرہ کو حل کرنے کے لیے کوئی مجتہدانہ مقام نہیں رکھتی، کبھی بھی اتنی مدت تک باقی نہیں رہ سکتی تھی جیسی کہ اس برسر انحطاط سوسائٹی اور اس پراگندہ دماغ، پراگندہ دل نسل میں رہ سکی۔ اسلام کی صحیح تعلیمات اور دعوت سے انحراف اور ان مخلصین و مجاہدین کی (جو ماضی قریب میں اس ملک میں پیدا ہوئے اور اسلام کے عروج اور مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے لیے اپنا سب کچھ مٹا کر چلے گئے) ناقدری کی سزا خدا نے یہ دی کہ ہندوستانی مسلمانوں پر ایک نئے ذہنی طاعون کو مسلط کر دیا اور ایک شخص کو ان کے درمیان کھڑا کر دیا جو امت میں فساد کا مستقل بیج بو گیا ہے۔

دمشق یونیورسٹی کے طلبہ و اساتذہ کے سامنے اسلام کی تاریخ اصلاح و تجدید کے موضوع پر ایک سلسلہ تقریر کے دوران میں ،راقم سطور نے تحریک باطنیت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا:

’’حضرات! میں جب باطنیت، اخوان الصفاء اور ایران کی بہائی اور ہندوستان کی قادیانیت کی تاریخ پڑھتا ہوں تو مجھے ایسا نظر آتا ہے کہ ان تحریک کے بانیوں نے اسلام اور بعثت محمدی کی تاریخ پڑھی تو انھوں نے دیکھا کہ ایک شخص تنہا جزیرۃ العرب میں ایک دعوت لے کر کھڑا ہوتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں نہ مال ہے نہ اسلحہ۔ وہ ایک عقیدہ اور ایک دین کی دعوت دیتا ہے اور کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرتا کہ ایک نئی امت، ایک نئی حکومت، ایک نئی تہذیب وجود میں آتی ہے۔ وہ تاریخ کا رُخ تبدیل کر دیتا ہے اور واقعات کا دھارا بدل دیتا ہے۔ ان کی بلند حوصلہ طبیعتوں نے ان سے کہا کہ اس کا نیا تجزیہ کیوں نہ کیا جائے۔ انھوں نے دیکھا کہ وہ ذہانت، دماغی صلاحیت، تنظیمی لیاقت بھی رکھتے ہیں اور پڑھے لکھے لوگ ہیں، پھر کیوں نہ تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی اور کس طرح انہی واقعات کا ظہور نہ ہو گا، جو طبعی اسباب اور عمل کے ماتحت گزشتہ دور میں ہو چکے ہیں۔ ان کو امید تھی کہ پھر اسی معجزہ کا ظہور ہو گا، جس کا تاریخ نے چھٹی صدی میں مشاہدہ کیا، اس لیے کہ فطرت انسانی ناقابل تبدیل ہے اور لوگوں میں ہمیشہ سے ہر دعوت قبول کرنے کی صلاحیت ہے۔‘‘

ان بلند حوصلہ انسانوں نے اس یکہ و تنہا ہستی کو تو دیکھا، جو بغیر کسی سرمایہ اور بغیر کسی فوجی طاقت و حمایت کے ایک دینی دعوت لے کر کھڑی ہوئی لیکن اس کے پیچھے اس ربانی جماعت اور ارادۂ الٰہی کو نہیں دیکھا جو اس کی کامیابی، غلبہ اور قیامت تک باقی رہنے کا فیصلہ کر چکا تھا اور جس نے اعلان کر دیا تھا۔

ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدیٰ وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَo

’’وہی ہے جس نے بھیجا اپنا رسولؐ ہدایت اور سچے دین کے ساتھ، تاکہ سب دینوں پر غالب کرے، خواہ شرک کرنے والے کتنا ہی برا مانیں۔‘‘

نتیجہ یہ ہوا کہ وقتی طور پر ان کی کوششیں کامیاب اور بار آور ہوئیں اور انھوں نے ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں اپنے ساتھی اور پیرو پیدا کر لیے۔ ان میں سے بعض (باطنیہ) نے عظیم الشان سلطنت (فاطمیہ) بھی قائم کر لی اور یہ سلطنت عرصہ تک پھلی پھولی اور ایک زمانہ میں اس نے سوڈان سے مراکش تک قبضہ کر لیا، لیکن جب تک ان کی تنظیم، ان کے مخفی انتظامات اور ان کی شعبدہ بازیاں باقی رہیں، یہ عروج بھی باقی رہا لیکن پھر وقت آیا کہ یہ سب عروج و اقتدار اور یہ سب ترقی و اقبال ایک افسانہ بن کر رہ گیا، ان کے مذاہب ایک مختصر دائرہ میں محدود ہو کر رہ گئے، جن کا زندگی پر کوئی اثر اور دنیا میں کوئی مقام نہیں۔

اس کے بالمقابل اسلام جس کو رسولؐ اللہ لے کر آئے، وہ آج بھی دنیا کی عظیم ترین روحانی طاقت ہے اور آج اس کے ساتھ ایک عظیم الشان امت ہے۔ آج بھی وہ ایک تہذیب رکھتا ہے اور بہت سی سلطنتوں اور قوموں کا مذہب ہے۔ نبوت محمدیؐ کا آفتاب آج بھی بلند اور روشن ہے اور تاریخ کے کسی دور میں بھی وہ گہن میں نہیں آیا۔‘‘

مولانا سید ابوالحسن علی ندوی