Language:

گفتگو – جاوید چوھدری

دواڑھائی برس پرانی بات ہے ۔ میرا بڑا بیٹا اس وقت بمشکل دو برس کا تھا۔ اس نے ابھی توتلی زبان میں باتیں شروع ہی کی تھیں۔ ایک روز ہمارے گھر میں میرے ایک باریش دوست تشریف لائے۔ میں اُن کے ساتھ گفتگو میں مصروف ہوگیا۔ میرا بیٹا خاموشی سے پاس بیٹھ گیا۔ یہ میرے لئے بڑے اچنبھے کی بات تھی۔ کیونکہ سیانوں کا کہنا ہے جب بچہ خاموش بیٹھا ہو تو سمجھ لیں وہ کوئی گل کھلا رہا ہے۔ میں نے بچے کی خاموشی پر غور کیا تو پتہ چلا وہ ہر چیز سے لاتعلق ہو کر مہان کے ’’رُخ انور‘‘ پر نظر جمائے بیٹھا ہے۔ میں نے اسے گدگدا کر اس ’’نظرالتفات‘‘ کی وجہ دریافت کی تو اس نے تھوڑا سا شرما کر کہا ’’پاپا اس انکل نے اتنی گرمی میں داڑھی کیوں پہن رکھی ہے؟‘‘ یہ سن کر میرے دوست نے فلک شگاف قہقہ لگایا جبکہ مجھ پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔قصور دراصل بچے کا بھی نہیں تھا۔ ہواکچھ یوں تھا کہ میں نے اسے کھلونوں کی دکان سے ایک نقلی داڑھی اور مونچھ لا کر دے دی تھی جسے وہ ’’بوقت ضرورت‘‘ پہن کر ہم سب کو ڈراتا رہتا تھا۔ جس سے میری بیوی بڑی نالاں تھی۔ جب بچے کی یہ بزرگانہ عادت پختہ ہونے لگی تو اس نے ایک روز اسے پاس بٹھا کر سمجھایا’’بیٹا گرمیوں میں داڑھی نہیں پہنا کرتے۔ اس سے منہ پر پھوڑے نکل آتے ہیں‘‘۔ میری بیوی کا یہ نسخہ بڑا کارگر ثابت ہوا اور میرے بیٹے نے یہ ’’حرکت بد‘‘ ترک کردی لیکن میری ’’عنایت‘‘ اور میری بیوی کی ’’تادیبی کاروائی‘‘ سے میرے بیٹے کے ذہن میں دو گرہیں پڑ گئیں۔ اول داڑھی پہننے والی چیز ہے جسے پہن کر لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے۔ دوم یہ چیز گرمیوں میں نہیں پہنی جاتی۔

یہ واقعہ میرے لیے بڑا ’’الارمنگ‘‘ تھا کیونکہ مجھے محسوس ہوا اگر بچے کو فوری طور پر اصل صورتِ حال نہ بتائی گئی تو وہ کسی روز کسی ’’اہلِ ایمان‘‘ کے ساتھ وہ سلوک نہ کردے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بچپن میں فرعون کی گود میں بیٹھ کر اس کے ساتھ کیا تھا۔ چنانچہ میں نے مہمان کی رخصتی کے بعد اسے پاس بٹھا کر سمجھانا شروع کردیا لیکن بدقسمتی سے میرے بیٹے کے ننھے سے  ذہن میں داڑھی پہننے اور داڑھی رکھنے کا باریک سا فرق نہ سمایا۔ جب میں بری طرح تھک گیا تو میں اس کے سامنے ایک ایسا شخص ’’بطور نمونہ‘‘ پیش کرنے کا فیصلہ کیا جس نے واقعی داڑھی رکھی ہوئی ہو۔

مجھے یہ اعتراف بھی کرنے دیں کہ جب میں اس تلاش سے بری طرح تھک گیا تو مجھے لوگوں کے ہجوم میں ایک ایسا انسان نظر آگیا جس کے چہرے پر نظر ڈالنے کے بعد دل بے اختیار محبت پر مجبور ہوجاتا ہے۔ پلکیں جھک جاتی ہیں، کانوں کے پردے ’’ہارڈ ڈسک‘‘ بن جاتے ہیں اور ذہن کے اندر یہ خواہش انگڑائی لینے لگتی ہے کہ یہ شخص اس طرح بولتا رہے،بولتا رہے اور ہم سنتے رہیں، سنتے رہیں۔۔۔۔اس شخص کا نام محمد طاہرعبدالرزاق ہے۔طاہر بھائی سے میری ملاقات 86-87ء میں ہوئی تھی۔ ان دنوں انہوں نے ختم نبوت پر نیا نیا کام شروع کیا تھا۔ میں ان دنوں کالج میں ایف اے کاطالب علم تھا۔ لاہور میاں میر میں ختم نبوت پر ایک جلسہ ہورہا تھا جس میں میں نے تقریر کی تو مجھے انعام میں طاہر بھائی مل گئے۔ اس دور میں ان سے میری بڑی ملاقاتیں رہیں، وہ ختم نبوت کے محاذ کے بڑے جوشیلے سپاہی تھے۔ ان کی باتیں سن کر اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنے کو جی چاہتا تھا کہ اس نے ہمیں مرزائی نہیں بنایا ورنہ طاہر بھائی ہمارا وہی حشر کرتے جو کبھی صلاح الدین ایوبی نے رچرڈ شیر دل کے لشکر کا کیا تھا۔ میں آج بارہ برس بعد اس وقت کے طاہر بھائی کے بارے میں سوچتا ہوں تو وہ مجھے ساون کا دریا لگتے ہیں جسے بہنا نہیں آتا۔ کنارے توڑنا اور دور دور تک تباہی اور بربادی پھیلانا آتی ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ ان دنوں ہم جیسے ’’ڈھیلے مٹھے‘‘ مسلمانوں کو بھی ’’قادیانیوں ‘‘ کا ایجنٹ ہی سمجھتے تھے ۔ کیونکہ ان کا خیال تھا جو مسلمان سرپرآہنی خود اور سینے پر زرہ بکتر پہن کر ، ہاتھ میں تلوار اٹھا کر ’’ربوہ‘‘ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے نہیں نکلتا اسے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لینے کا کوئی حق نہیں۔ کفرواسلام کی جنگ میں کافروں کے لیے بہتر سلوک کی درخواست کرنے والے لوگ مسلمان نہیں کافروں کے ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ یقین فرمائیے میں طاہر بھائی کے ان ’’باغیانہ خیالات‘‘ سے پریشان ہو کر فوراً آگے پیچھے ہوگیا کیونکہ مجھے خطرہ تھا اگر میں ان مزید چند روز ان کی صحبت میں رہا تو یقینا کسی روز گھوڑے پر سوار ہو کر ’’ربوہ‘‘ پر حملہ آور ہوجائوں گا اورمجھے حکومت پکڑ کر انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کردے گی۔

پچھلے ماہ بارہ برس بعد طاہربھائی سے ملاقات ہوئی تو مجھے اس طاہر بھائی اور اس طاہربھائی میں زمین آسمان کا فرق محسوس ہوا۔ کہاں ساون کا چڑھا دریا اور کہاں ایک پُر سکون عمیق سمندر ، کہاں نعرے لگانے ، جھنڈے لہرانے اور جبڑے توڑنے والا جیالا اور کہاں ایک متحمل صوفی، عشق رسولؐ میں ڈوبا ایک وضع دار عاشق ، ذلیل اور منطق سے بنا ایک عالم اور دلوں پر دستک دینے والا ایک دانشور۔ مجھے نہیں معلوم ان بارہ برسوں میں طاہر بھائی پر کیا گذری۔ یہ سلوک کی کن کن منزلوں سے گزرے۔ انہوں نے عشق کے کون کون سے مراحل طے کیے، ان کا گزر کن کن ہستیوں کی بارگاہوں سے ہوا اور انہوں نے عشق کے کون کون سے چشموں کا پانی پیا لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں، طاہر بھائی کا شمار تاریخ کے ان چند حضرات میں ہوتا ہے جن کے عشق کی ایک ہی جست سارے قصے تمام کردیتی ہے۔جو جب سوزوگداز کے گہرے پانیوں سے باہر آتے ہیں تو لفظ ان کے غلام بن چلے ہوتے ہیں۔ فقرے ’’کمیوں‘‘ کی طرح ان کی چوکھٹ پرماتھارگڑ رہے ہوتے ہیں اور زبان ہاتھ باندھ کر ان کے ایک اشارہ چشم کی منتظر ہوتی ہے۔

میرا ذاتی خیال ہے لکھنا کوئی بڑی بات نہیں جس نے بھی چند برسوں تک استادوں کی جوتیاں سیدھی کی ہوں، چند کتابیں پڑھی ہوںاور غلطی سے اس کے ہاتھ ایک قلم اور چند کاغذ آلگے ہوںوہ تحریر کا حشر نشر کرنے کا پورا حق رکھتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ لفظوں میں تاثیر صرف محمد طاہرعبدالرزاق جیسے لوگوں ہی کو عطا کرتا ہے۔ آپ ان کی کوئی سطر اٹھا کر پڑھیں۔ ان کی درجنوں کتابوں میں سے کسی ایک کتاب کا کوئی ایک صفحہ کھول کر دیکھیں لفظ آپ کے ذہن میں اس طرح اتر جائیں گے جس طرح صحرا کے سینے میں شبنم کے قطرے اترتے ہیں۔ ذرا ایمان سے بتائیے ہمارے عہد میں کون ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اتنا نوازاہو، جسے لفظوں کا ایسا جادو ودیعت کیا ہو کہ وہ ختم نبوت جیسے خشک، علمی اور مذہبی موضوع کو ادب بنادے۔ لوہے کو پانی کی طرح بہنے پر مجبور کردے۔

خدا گواہ ہے اگر اب طاہر بھائی میرے ہاتھ آلگیں تو میں فوراً اپنے بیٹے کو ان کے سامنے بٹھا کر کہوں گا’’بیٹا دیکھو‘‘ ایسے لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے داڑھیاں پہنی نہیں ہوتیں، تم جب بڑے ہوجائو تو جاوید چودھر ی نہ بننا، طاہر بھائی بننا۔ یقین فرمائیے میری اس خواہش میں ذرہ بھر بھی صحافیانہ مبالغہ شامل نہیں۔