Language:

حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ

            شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ آسمانِ ولایت پر آفتابِ عالمتاب بن کر چمکے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بے شمار کمالات اور سعادات سے نوازا تھا۔ ان کی علمی و روحانی شہرت بین الاقوامی حیثیت رکھتی ہے۔ حضرت ختم نبوت کے مجاہد تھے۔ فتنۂ قادیانیت کی تردید میں دن رات ایک کیا۔ قید و بند سے بھی گریز نہ فرمایا۔ 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں آپ گرفتار ہوئے۔ گرفتاری کے موقع پر آپ نے فرمایا کہ نبی آخرالزمانصلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کے لیے جیل جانا کیا، اگر سر کٹانے کی نوبت بھی آئے تو میں اسے اپنے لیے عین سعادت سمجھوں گا۔

ایک دفعہ مولانا تاج محمودؒ اور مناظر اسلام حضرت مولانا لال حسین صاحب اخترؒ، حضرت مولانا احمد علی صاحب لاہوریؒ کی خدمت میں حاضر تھے۔ دورانِ گفتگو ختم نبوت کے ساتھیوں کا تذکرہ آ گیا۔ حضرت لاہوریؒ نے فرمایا کہ:’’میں ختم نبوت کے ساتھیوں سے محبت کرتا ہوں۔‘‘

اور پھر فرمایا:                  ’’میں کیا ان سے تو خود سرکارِ دو عالمصلی اللہ علیہ وسلم محبت فرماتے ہیں۔‘‘

q          ایک دفعہ حضرت لاہوریؒ نے ایک جلسۂ عام میں حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔

’’میں مرکزی حکومت سے کہتا ہوں کہ یہ عہدے کوئی چیز نہیں، خدا سے اپنا معاملہ درست رکھو۔ آج کسی کا ہارٹ فیل ہو جائے تو قبر میں اگر پوچھا گیا کہ ختم نبوت کے لیے کیا کِیا تھا؟ تو کیا جواب دو گے؟ وہاں تو قادیانیوں کی دوستی کام نہیں آئے گی۔ وہاں مرزائیوں کی حمایت کام نہیں آئے گی۔ حکومتی عہدیداروں کو سمجھ لینا چاہیے کہ اگر مرزائیوں کی حمایت کرو گے تو قبر جہنم کا گڑھا بنے گی۔‘‘

q          مولانا احمد علی لاہوریؒ نے ساری زندگی مجاہدین ختم نبوت کی سرپرستی فرمائی۔ تحریر و تقریر کے ذریعے اس فتنہ کی سرکوبی فرمائی۔ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ تحفظِ ختم نبوت کے سپاہیوں سے عشق کی حد تک لگائو تھا۔ خصوصاً سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ سے انتہائی محبت تھی۔ شاہ جی جیل میں ہوتے یا سفر و حضر میں ہمیشہ اپنے احباب سے ان کی خیریت دریافت کرتے رہتے۔ مولانا عبیداللہ انورؒ فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ آپؒ نے فرمایا: محشر کا دن ہوگا، رحمت دو عالمصلی اللہ علیہ وسلم جلوہ افروز ہوں گے۔ صحابہؓ بھی ساتھ ہوں گے۔ بخاریؒ آئے گا، حضور نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم معانقہ فرمائیں گے اور کہیں گے بخاریؒ تیری ساری زندگی عقیدۂ ختم نبوت کی حفاظت میں گزری، آج میدانِ حشر میں تیرا شفیع میں ہوں، تیرے لیے کوئی باز پرس نہیں، جا! اپنے ساتھیوں سمیت جنت میں داخل ہو جا۔ تیرے اور تیری جماعت کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھلے ہیں۔ جس طرف سے چاہو، کھلے بندوں جنت میں داخل ہو سکتے ہو۔

q          ایک دفعہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام سرگودھا میں ختم نبوت کانفرنس میں مدعو تھے۔ لیکن آپ کی طبیعت سخت علیل تھی۔ بہرحال وعدہ کے مطابق کانفرنس میں تشریف لائے۔ چارپائی پر آپ کو سٹیج پر لایا گیا۔ اپنے خطاب میں فرمایا:

            ’’لوگو! میں سخت بیمار ہوں، ڈاکٹروں نے سفر کرنے اور تقریر کرنے سے سختی سے منع کیا ہوا ہے لیکن یہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا مسئلہ ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کا سوال ہے۔ میں کسی حال میں بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں رہنا چاہتا۔ کانفرنس میں محض اس لیے آ گیا ہوں کہ شاید قیامت کے دن اس عمل کی بدولت نجات ہو جائے۔‘‘

q          حضرت شیخ التفسیرؒ اظہار حق میں شمشیر برہنہ تھے۔ 1953ء میں تحریک ختم نبوت سے کچھ روز قبل جمعہ کی تقریر میں حکمرانوں کو للکار کر فرمایا:

            ’’میں خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم پاکستان اور میاں ممتاز دولتانہ وزیر اعلیٰ پنجاب سے پوچھتا ہوں کہ تمہاری غیرت اسلامی اور حمیت دینی کو کیا ہو گیا ہے؟ تم مسلمان حکمران ہو؟ تمہاری حکومت میں رسالت مآبصلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے۔ ختم نبوت کے انکار کرنے والے قادیانی، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام، قرآن پاک اورحدیث رسولصلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کر رہے ہیں مگر تم ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ تم انہیں مسلمانوں سے علیحدہ نہیں کرتے، انہیں کافر اور دائرہ اسلام سے خارج کرنے کے مطالبہ کو نہیں مانتے۔ کیا تمہیں مرنا نہیں؟ خدا کے حضور کیا جواب دو گے؟ پھر فرمایا! مرزا قادیانی کہتا ہے کہ جو مجھے نبی تسلیم نہیں کرتے، وہ جنگلی سور ہیں اور ان کی عورتیں کتیاں ہیں۔ میں خواجہ ناظم الدین اور دولتانہ سے پوچھتا ہوں کہ کیا تم بھی مرزائی ہو؟ اگر نہیں تو مرزا قادیانی کے کہنے پر تم بھی جنگلی سور اور تمہاری عورتیں کتیاں ہیں۔ پھر بھی تمہیں غیرت نہیں آتی۔ فحش گالیاں دینے والے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے، مسلمان تو غیرت مند ہوتے ہیں۔‘‘

حکمراں ہو کے بھی تم غیر کے محکوم رہے

غیرت تاج ملی مگر تاج سے محروم رہے