Language:

پروفیسر چودھری فضل احمد

پروفیسر میاں محمد یعقوب (شعبۂ اردو نیشنل سائنس کالج گوجرانوالا) ایک ایمان افروز واقعہ یوں بیان کرتے ہیں:

’’1966-67ء کی بات ہے، میں لاہور کے سنٹرل ٹریننگ کالج میں B.Ed کا طالب علم تھا۔ وہاں ہمارے ایک بزرگ پروفیسر تھے، چودھری فضل احمد، انھوں نے یہ واقعہ کلاس روم میں سنایا:

’’میں بیروت کی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا اور وہاں ہندوستان (تقسیم سے قبل) کے بہت سے طلبہ و طالبات زیر تعلیم تھے۔ ان میں سے ایک لڑکی (نام نہیں بتایا) بہت شوخ و شنگ اور الٹرا ماڈرن قسم کی تھی۔ اس کا تعلق ہندوستان کے کسی مسلمان نواب گھرانے سے تھا۔ وہ خود شاید فیشن کے طور پر کمیونزم کی پرچارک تھی۔

ایک دن ٹک شاپ پر اسلام اور کمیونزم کی بحث چل رہی تھی کہ اس ناہنجار لڑکی نے حضور نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ایک آدھ نازیبا لفظ کہہ دیا۔ میں نے اسے بے نقط سنائیں، بہت برا بھلا کہا اور ہمیشہ کے لیے اس سے قطع کلام کر لیا۔ پھر یوں ہوا کہ مجھے (پروفیسر فضل احمد) اور اس نابکار لڑکی کو جو اپنی امارت اور حسن پر بہت نازاں تھی، دورانِ تعلیم ہی میں برص کا حملہ ہوا۔ اس نے اپنے حسن کو بچانے کے لیے اس وقت کے اعلیٰ ترین ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کی طرف رجوع کیا لیکن برص پھیلتا چلا گیا اور وہ خود بھی پھیلتی چلی گئی، یعنی بے اندازہ موٹی ہو گئی۔ ہندوستان واپسی پر اس کا کہیں رشتہ نہ ہو سکا اور اپنی مضحک ہیئت کذائی کی وجہ سے اس نے گھر سے نکلنا بھی چھوڑ دیا اور وہ جو کبھی جانِ محفل ہوا کرتی تھی، سوسائٹی میں نسیاً منسیاً ہو گئی۔

اُدھر واپسی کے بعد میں نے جہلم کے ایک ڈاکٹر سے علاج کروایا اور اللہ کے فضل سے (چہرہ پر ایک آدھ داغ کے سوا) شفا ہو گئی۔‘‘

تقریباً ساری کلاس نے سوال کیا۔ ’’سر! اسے تو رحمۃ للعالمینصلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کے سبب یہ سزا ملی، آپ پر برص کیوں حملہ آور ہوا؟‘‘

بوڑھے پروفیسر کے جواب نے نہ صرف کلاس کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا بلکہ سب کو آنسوئوں سے رُلا دیا۔ فرمایا ’’مجھے اس وجہ سے برص ہوا کہ میں نے گالیوں پر اکتفا کیوں کیا اور اسے اُسی دم قتل کیوں نہ کر دیا۔‘‘