Language:

تحریک ختم نبوت 1953ء کے ایمان افروز واقعات

تحریک ختم نبوت 1953ء میں لاہور، لائل پور (فیصل آباد)، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، ساہیوال، راولپنڈی، سرگودھا اور دوسرے تمام شہروں اور قصبوں کی حالت یہ تھی کہ رضاکار اپنے اپنے بھرتی کے مراکز پر آتے، جسم پر بڑی دلیری سے زخم لگاتے اور خون سے حلف نامے پر دستخط یا انگوٹھا ثبت کر دیتے تھے۔ رضاکاروں کا یہ جذبہ گفتنی نہیں، دیدنی تھا۔ بس ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے ان نوجوانوں کے سینوں میں قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے دل دھڑکنے لگ گئے ہیں اور یہ دنیا و مافیہا سے منہ موڑ کر خواجۂ بطحاصلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت پر قربان ہو جانا چاہتے ہیں۔

لکھتا ہوں خون دل سے یہ الفاظ احمریں

بعد از رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہاشمی کوئی نبی نہیں

 مجاہدین ختم نبوت

 تحریک ختم نبوت میں لاہور کی سڑکوں پر ایک مسلمان دیوانہ وار ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگا رہا تھا۔ ایک پولیس والے نے پکڑ کر تھپڑ مارا۔ اس پر اس نے پھر ختم نبوت زندہ باد کا نعرہ لگایا۔ پولیس والے نے بندوق کا بٹ مارا، اس نے پھر نعرہ لگایا۔ وہ مارتے رہے، یہ نعرہ لگاتا رہا۔ اسے اٹھا کر گاڑی میں ڈالا، یہ زخموں سے چُور چُور پھر بھی ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگاتا رہا۔ اسے گاڑی سے اتارا گیا تو بھی وہ نعرہ لگاتا رہا۔ اسے فوجی عدالت میں لایا گیا اس نے عدالت میں آتے ہی ختم نبوت کا نعرہ لگایا۔ میجر نے کہا ایک سال سزا۔ اس نے سال کی سزا سن کر پھر ختم نبوت کا نعرہ لگایا۔ اس نے سزا دو سال کر دی، اس نے پھر نعرہ لگا دیا غرضیکہ میجر سزا بڑھاتا رہا اور یہ مسلمان نعرہ ختم نبوت بلند کرتا رہا۔ فوجی عدالت جب بیس سال پر پہنچی، دیکھا کہ بیس سال کی سزا سن کر یہ پھر بھی نعرہ سے باز نہیں آ رہا۔ تو میجر نے کہا کہ عدالت سے باہر لے جا کر ابھی اسے گولی مار دو۔ اس نے گولی کا سن کر دیوانہ وار رقص کرنا شروع کر دیا اور ساتھ ختم نبوت زندہ باد، ختم نبوت زندہ باد کے فلک شگاف ترانہ سے ایمان پرور اور وجد آفریں کیفیت طاری کر دی۔ یہ حالت دیکھ کر عدالت نے کہا کہ اسے رہا کر دو، یہ دیوانہ ہے، اس نے رہائی کا سن کر پھر نعرہ لگایا۔ ختم نبوت زندہ باد

(قارئینِ کرام! میں یہ ایمان پرور واقعہ لکھتے ہوئے نعرہ لگاتا ہوں اور آپ پڑھتے ہوئے نعرہ لگائیں۔ ختم نبوت زندہ باد، ختم نبوت زندہ باد، ختم نبوت زندہ باد)

            تحریک ختم نبوت 53ء میں دہلی دروازہ لاہور کے باہر صبح سے عصر تک جلوس نکلتے رہے اور دیوانہ وار سینوں پر گولیاں کھا کر آقائے نامدارصلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس پر جان قربان کرتے رہے۔ عصر کے بعد جب جلوس نکلنے بند ہو گئے تو ایک اسّی سالہ بوڑھا اپنے معصوم پانچ سالہ بچے کو اپنے کندھے پر اٹھا کر لایا۔ باپ نے ختم نبوت کا نعرہ لگایا۔ معصوم بچے نے جو باپ سے سبق پڑھا تھا، اس کے مطابق زندہ باد کہا۔ دو گولیاں آئیں، اسّی سالہ بوڑھے باپ اور پانچ سالہ معصوم بچے کے سینے سے شائیں کر کے گزر گئیں، دونوں شہید ہو گئے۔ مگر تاریخ میں اس نئے باب کا اضافہ کر گئے کہ اگر آقائے نامدارصلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس پر مشکل وقت آئے تو مسلمان قوم کے اسّی سالہ بوڑھے خمیدہ کمر سے لے کر پانچ سالہ معصوم بچے تک سب جان دے کر اپنے پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کا تحفظ کرتے ہیں۔

مسافروں سے کہو رات سے شکست نہ کھائیں

میں لا رہا ہوں خود اپنے لہو سے بھر کے چراغ

            حضرت مولانا عزیز الرحمن جالندھری راوی ہیں:

            ’’1953ء کی تحریکِ ختم نبوت میں گرفتاری کے لیے پیش ہونے والے مجاہدینِ ختمِ نبوت کو پولیس پکڑ کر کراچی سے بلوچستان کی طرف تقریباً سو میل دُور ایک مقام پر چھوڑ کر آئی، لیکن پولیس والوں کی حیرت کی انتہا نہ رہتی جب ٹھیک تین چار گھنٹوں بعد انہی کارکنوں کو وہ کراچی میں پھر جلوس نکالتے ہوئے پاتے۔ پولیس انکوائری کر کر کے تھک گئی کہ کونسی طاقت ان کو اس دُور کے جنگل سے اتنی جلدی کراچی میں پہنچا دیتی ہے؟ زمین سمیٹ دی جاتی ہے؟ غائبانہ سواری کا انتظام ہوتا ہے؟ یا اس گروہ کو لانے والی کوئی مستقل تنظیم ہے؟ بہرحال پولیس کے لیے یہ معمہ رہا، اور واقعہ یہ ہے کہ تمام کارکنوں کو جونہی دُور دراز کے جنگل میں چھوڑا جاتا، اللہ رَبّ العزّت ان کے لیے فی الفور کراچی پہنچانے کا انتظام فرما دیتے، وہ کارکن کراچی آتے ہی پھر تحریک کے الائو کو روشن کر نے میں لگ جاتے، بالآخر پولیس نے تھک کر یہ پروگرام ترک کر دیا۔‘‘

مولانا مزید فرماتے ہیں: ’’ایک دفعہ پولیس والے مجاہدینِ ختمِ نبوت کے ایک جتھے کو رات کے وقت گرفتار کر کے دُور کے ایک جنگل میں چھوڑ آئے، پولیس کے جانے کے بعد یہ مجاہد چند قدم چلے تو روشنی نظر آئی، وہاں گئے تو جنگل میں چند گھرانے آباد دیکھے، ان گھرانوں میں سے ایک آدمی باہر آیا، ان مجاہدین کو بلایا، دُعا دی، راستہ اور حفاظت کا وظیفہ بتلایا، یہ حضرات چند گھنٹوں میں کراچی پہنچ گئے۔ پولیس والے سو کر بھی نہ اُٹھے ہوں گے کہ یہ حضرات کراچی میں پھر ختمِ نبوت کے جلوس نکالنے میں مصروف ہو گئے۔ جنگل میں کونسی قوم آباد تھی؟ وہ آدمی از خود بغیر آواز دیے، کیسے رات کے وقت باہر آیا؟ کراچی کا راستہ اور حفاظت کا وظیفہ کیوں بتلایا؟ دُعا کیوں دی؟ وہ کون تھا؟ ان مجاہدین کے ساتھ ان کا یہ شفیق برتائو کیوں؟ آج تک اہلِ دُنیا کے لیے یہ معمہ ہے، مگر اہلِ نظر خوب جانتے ہیں کہ ان حضرات پر ختم نبوت کی وجہ سے اللہ رَبّ العزّت کے اِنعامات کی بارش ہو رہی تھی۔‘‘

 مولانا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’تحریک ختم نبوت میں ایک طالب علم کتابیں ہاتھ میں لیے کالج جا رہا تھا۔ سامنے تحریک میں شامل لوگوں پر گولیاں چل رہی تھیں۔ کتابیں رکھ کر جلوس کی طرف بڑھا۔ کسی نے پوچھا یہ کیا۔ جواب میں کہا: ہمیشہ پڑھتا رہا ہوں، آج عمل کرنے جا رہا ہوں۔ جاتے ہی ران پر گولی لگی، گر گیا۔ پولیس والے نے آ کر اٹھایا تو شیر کی طرح گرجدار آواز میں کہا: ظالم گولی ران پر کیوں ماری ہے، عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تو دل میں ہے، یہاں دل پر گولی مارو تاکہ قلب و جگر کو سکون ملے۔‘‘

جو سوچتا رہا، رہا گمنام و نامراد

جو بڑھ کے جل گیا، وہی پروانہ بن گیا

     ڈاکٹر اسرار احمد صاحب راوی ہیں: ’’1953ء کی تحریک ختم نبوت کے دوران بطور ڈاکٹر میری تعیناتی میو ہسپتال میں تھی۔ ہم چند دوست ہسپتال کی چھت پر کھڑے تھے۔ اچانک دیکھا کہ نسبت روڈ چوک کی جانب سے ختم نبوت کے پروانوں کا ایک جلوس بڑھتا ہوا آ رہا ہے، جسے روکنے کے لیے فوج نے ہسپتال کے گیٹ کے آگے ریڈ لائن لگا دی اور انتباہ کر دیا کہ جو بھی اسے پار کرے گا، اسے گولی مار دی جائے گی۔ یہ ایک ایسا انتباہ اور ایسی وارننگ تھی، جسے عاشقانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری تاریخ میں کبھی پرکاہ سی اہمیت بھی حاصل نہ رہی، یہاں بھی یہی ہوا، جلوس نامِ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتوں کے ترانے بلند کرتا ہوا اسی آن سے آگے بڑھتا رہا۔ ریڈ لائن پہ اک لمحے کو رُکا۔ دوسرے ہی لمحے چشم فلک نے دیکھا کہ غلامیِ رسول پہ ناز کرنے والا ایک خوبرو نوجوان آگے بڑھا، اس نے اپنا سینہ کھولا اور نعرہ لگایا ختم نبوت زندہ باد اور سرخ لائن کراس کر گیا۔ دوسری طرف سے قادیانیت نواز کی بندوق سے گولی نکلی اور سرخ سرحد عبور کرنے والا جوان، عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر میں اتنا تیز نکلا کہ ایک ہی جست میں زندگی کی سرحد عبور کر کے قدم بوسیِ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے لیے روانہ ہو گیا۔ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ اسی رفتار سے دوسرا جوان آگے بڑھا، اس نے بھی گریبان چاک کیا اور پوری قوت سے نعرہ زن ہوا، ختم نبوت زندہ باد، ظلم و تشدد کی روایت کے مطابق ادھر سے گولی آئی اور عشق و محبت کی تاریخ کا اک اور صفحہ رنگین کرتے ہوئے گزر گئی، وہ جوان لڑکھڑایا اور لبوں پر فاتحانہ مسکراہٹ لیے راہی فردوسِ بریں ہو گیا۔ اس سے پہلے کہ تیسرا نوجوان آگے بڑھتا، ہم چھت سے نیچے آ چکے تھے اور ادھر خبر ملی کہ ان دونوں جوانوں کے لاشے بھی ہسپتال پہنچ چکے ہیں۔ دورانِ زیارت معلوم ہوا کہ دونوں جوان سگے بھائی تھے۔‘‘

یاد ہم تم کو شہیدانِ نبی کرتے ہیں!                  ناز ہم تم پہ عزیزانِ نبی کرتے ہیں

بے گماں خون شہیدانِ نبی کے چھینٹے            چشم عالم میں فزوں شانِ نبی کرتے ہیں

سر بکف کفر کے باطل کے مقابل ہوں گے        عہد و پیمان ثناء خوانِ نبی کرتے ہیں

اپنے نزدیک تو ہیں قابل شمشیر و سناں            جو بھی توہین رفیقانِ نبی کرتے ہیں

اے بخاری! تیری عظمت تیری رفعت کی قسم     عہد تقلید شہیدانِ نبی کرتے ہیں

مشکبو کرتے ہیں کانٹوں کو اگر ہم تو فقط         بہر تزئین گلستانِ نبی کرتے ہیں

کسی کذاب و مفتّنِ نے اگر دعویٰ کیا               جان قربان غلامانِ نبی کرتے ہیں

کاروان سیّد یثرب کا چلے گا ہر سو                یہ صدا آج حدی خوانِ نبی کرتے ہیں!

(اکرام الحق سرشار)

  عالمی مجلسِ تحفظ ختم نبوت واہ کینٹ کے حضرت مولانا عبدالقیوم مدظلہ نے اپنے علاقہ کا ایک ایمان پرور واقعہ سنایا کہ تحریک ختم نبوت 1974ء میں واہ کینٹ میں ایک جلوس نکلا۔ پولیس نے جلوس کے کئی شرکا کو گرفتار کر لیا۔ ان میں ایک سات سالہ بچہ بھی تھا۔ مقامی ڈی، ایس، پی نے اس بچے کو مرغا بنا کر پوچھا: ’’بتائو تمہاری پیٹھ پر کتنے جوتے ماروں۔‘‘ بچے نے بڑی ایمانی جرأت اور معصومیت سے جواب دیا: ’’اتنے جوتے مارنا جتنے تم قیامت کے دن کھا سکتے ہو۔‘‘ اتنا سننا تھا کہ ڈی، ایس، پی مارے خوف کے پسینہ پسینہ ہو گیا اور اس بچے کو سینہ سے لگایا، پیار کیا، گھر لے گیا، کھانا کھلایا، رقم دی، پائوں پکڑ کر معافی مانگی اور فوراً گھر چھوڑنے گیا۔

وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا               شباب جس کا ہو بے داغ ضرب ہو کاری

 چودھری نذیر احمد صاحب بھائی پھیرو میں کریانہ کا کاروبار کرتے ہیں۔ 1953ء کی تحریک ختم نبوت کا واقعہ انہی کی زبانی سنیے اور اپنے ایمان کو تر و تازہ کیجئے، فرماتے ہیں:

’’میری شادی کے چند ماہ بعد تحریک ختم نبوت 1953ء شروع ہوئی۔ میں تحریک میں بھرپور حصہ لینے کے لیے ننکانہ صاحب سے لاہور، مسجد وزیر خاں چلا گیا۔ یہاں روزانہ جلسہ ہوتا اور جلوس نکلتے۔ ایک دن جنرل سرفراز، جو غالباً اس وقت لاہور کا کور کمانڈر تھا، کے کہنے پر مسجد کی بجلی اور پانی کا کنکشن کاٹ دیا گیا۔ اس پر مسجد میں ایک احتجاجی جلسہ ہوا، پھر جلوس نکلا۔ میں اس جلوس میں شامل تھا۔ فوج نے ہمیں گرفتار کر لیا۔ چند احباب کے ہمراہ سرسری سماعت کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ میرا نمبر آخر میں تھا۔ میری باری پر قادیانی میجر جنرل حیاء الدین نے کہا معافی مانگ لو کہ آئندہ تحریک میں حصہ نہیں لو گے تو ابھی بری کر دوں گا۔ میں نے مسکراتے ہوئے میجر کو کہا کہ آپ کی بات سمجھ میں نہیں آ رہی کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کا مسئلہ ہو اور ایک امتی کی شفاعت کا ذریعہ ہو اور پھر وہ معافی مانگ لے؟ میجر نے کہا کہ سامنے لان میں چلے جائو۔ آدھا گھنٹہ اچھی طرح سوچ لو۔ میں لان میں بیٹھ گیا۔ پھر پیش کیا گیا تو میجر جنرل نے کہا کہ معافی مانگ لو۔ میں نے مسکراتے ہوئے میجر کو جواب دیا کہ شاید آپ کو اس مسئلہ کی اہمیت کا علم نہیں، آپ کی بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی کہ اس مسئلہ میں معافی کیا ہوتی ہے؟ اس پر میجر حیاء الدین نے غصہ کی حالت میں میرے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کیا اور آٹھ ماہ قید بامشقت اور 500 روپے جرمانہ کا حکم دیا، جسے میں نے بخوشی قبول کر لیا۔ میرے نامۂ ا عمال میں میری بخشش کے لیے یہی ایک نیکی کافی ہے۔‘‘

 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں میانوالی سے قافلے گرفتاری کے لیے لاہور جاتے تھے۔ ایک قافلہ میں میاں فضل احمد موچی بھی جا کر گرفتار ہو گیا۔ ان کی گرفتاری مارشل لاء کے تحت عمل میں آئی۔ مارشل لاء عدالت نے ان کے بڑھاپے کو دیکھ کر دیگر ساتھیوں کی نسبت کم سزا دی۔ اس پر وہ بگڑ گئے۔ عدالت سے احتجاج کیا کہ میرے ساتھ انصاف کیا جائے۔ اس سے عدالت نے سمجھا کہ شاید یہ سزا کم کرانا چاہتا ہے۔ عدالت نے جب پوچھا تو کہا’’مجھ سے کم عمر کے لوگوں کو دس دس سال کی سزا دی، میرے ساتھ انصاف کیا جائے اورمیری سزا میں اضافہ کیا جائے۔‘‘ یہ سن کر مارشل لاء عدالت کانپ اٹھی۔ اس بوڑھے جرنیل کی ایمانی غیرت پر جج انگشت بدنداں اُٹھ کر عدالت سے ملحق کمرہ میں چلا گیا۔ میاں فضل احمد نے عدالت میں کپڑا بچھا کر گرفتاری، سزا اور آقائے نامدارصلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے تحفظ کے لیے اپنی قربانی کی بارگاہ خداوندی میں قبولیت کے لیے نوافل پڑھنے شروع کردئیے۔

انوکھی وضع ہے سارے زمانے میں نرالے ہیں              یہ عاشق کون سی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں