• Home
  • >
  • Articles
  • >
  • Qadiani-Adliyah-Ki-Nazar-Main
  • >
  • اہلبیت رضی اللہ عنہ کے بارے میں توہین اور پاکستان کا قانون محمود الحسن بھٹی سینئر ایڈووکیٹ
Language:

اہلبیت رضی اللہ عنہ کے بارے میں توہین اور پاکستان کا قانون محمود الحسن بھٹی سینئر ایڈووکیٹ

قادیانیوں کی خلافِ اسلام سرگرمیوں کو روکنے کے لیے صدر مملکت نے 26 اپریل 1984ء کو امتناع قادیانیت آرڈینینس نافذ کیا اورتعزیراتِ پاکستان میں دفعہ 298۔ بی کا اضافہ کیا گیا ہے جس کی رو سے قادیانی گروپ‘ لاہوری گروپ کے کسی بھی ایسے شخص کو جو زبانی یا تحریری طور پریا کسی فعل کے ذریعے مرزا قادیانی کے جانشینوں یا ساتھیوں کو ’’امیر المومنین‘‘ یا ’’صحابہ‘‘ یا اس کی بیوی کو ’’ام المومنین‘‘ یا اس کے خاندان کے افراد کو ’’اہلِ بیت‘‘ کے الفاظ سے پکارے یا اپنی عبادت گاہ کو ’’مسجد‘‘ کہے‘ تین سال کی سزا اور جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔

مگر افسوس صد افسوس کہ قادیانی اس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مرزا قادیانی اور اس کی آل پر درود وسلام بھیجتے ، مرزا قادیانی کی بیوی کو ام المومنین،اس کی بیٹی کو سید ۃ النساء اور اس کے گھرانے کو اہل بیت کہتے ہیں۔ قادیانیوں کی کتابوں اور اخباروں میں شعائر اسلامی کو مرزا قادیانی کے گھرانے کے لوگوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔دوسری طرف قادیانیوں اور لاہوری مرزائیوں نے اس آرڈینینس کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج بھی کر دیا کہ یہ آرڈینینس قرآن و سنت کے منافی ہے ۔

وفاقی شرعی عدالت کے پانچ رکنی بینچ نے اس کیس کی سماعت کی ۔ قادیانیوں کی طرف سے مجیب الرحمن ایڈووکیٹ قادیانی اور لاہوری مرزائیوںکی طرف سے عبدالواجد لاہوری مرزائی پیش ہوئے ۔ 25 جولائی 1984 ء سے 12 اگست 1984 ء تک اس کی سماعت جاری رہی ۔ 29  اکتوبر 1984 ء کواس کیس کے  247 صفحات پرمشتمل تفصیلی فیصلہ میں اس آرڈینینس کو قرآن و سنت کے مطابق قرار دیا گیا ۔ اس فیصلہ میں اہل بیت کی اصطلاح مرزا قادیانی کے خاندان والوں کے لئے استعمال کرنے سے متعلق عدالت نے فیصلہ میں لکھا کہ’’ اہل بیت کی اصطلاح بھی جیسا کہ کئی احادیث سے واضح ہوتا ہے حضرت رسول اللہ  ﷺ کے خاندان کے افراد کے لیے مخصوص ہے۔ایسے اشخاص جو مسلمان نہیں ہیں یا جو مسلمان نہیں تھے ان کو اس نام سے نہیں پکارا جا سکتا۔ قادیانیوں کی طرف سے مرزا قادیانی کے افراد خاندان کے لیے ایسے نام کا استعمال زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ وہ اوصاف جن سے رسول اللہ  ﷺ کے افرادِ خاندان متصف تھے وہ کسی اور شخص میں موجود نہیں ہو سکتے‘ اس لیے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ مسلمانوں نے اس توہین کا برا منایا۔ اس اصطلاح کے استعمال سے امن و امان کا مسئلہ خراب ہوتا ہے۔ لہٰذا یہی امت کے مفاد میں تھا کہ اس کے استعمال کو فوجداری جرم قرار دے کر قادیانیوں کو اس کے استعمال سے منع کر دیا جائے‘‘۔

(فیصلہ وفاقی شرعی عدالت مورخہ29اکتوبر 1984ئ)  (PLD 1985 FSC 8)

لاہور ہائی کورٹ نے فوجداری مقدمہ بعنوان ناصر احمد بنام سرکار میں مرزا قادیانی کی کتابوں کا جائزہ لیا اور اپنے فیصلہ مورخہ 2  اگست1992 ء میں لکھا کہ ’’مرزا قادیانی نے دعویٰ کیا کہ وہ مقام اور مرتبے کے لحاظ سے حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ سے بڑھ کر تھا۔ اپنی تحریر کردہ کتب دافع البلائ‘ نزولِ مسیح اور درثمین میں انؓ کی تذلیل و اہانت کی ہے …حضور نبی کریم حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت امام حسن رضی اﷲ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ سے شدیدمحبت رکھتے تھے ۔ مگر مرزا قادیانی نے حسنین رضی اﷲ عنہما کے لئے توہین اور نفرت کا اظہار کیا ہے ‘‘۔اس مقدمہ میںقادیانی وکیل مبشر لطیف احمد نے قادیانی ملزم کی پیروی کی اور مرزا قادیانی کی کتابوں میں درج ان گستاخیوں کا بھر پور دفاع کیا ۔عدالت عالیہ میں مرزا قادیانی کی کتابوں سے لئے گئے اہل بیت کے بارے میں توہین آمیز حوالہ جات اس فیصلہ کے آخر میں درج ہیں اورپاکستان کریمنل لاء جرنل 1992 ء کے صفحہ 2359  پر ریکارڈ کا حصہ ہیں،اس کا عکس ملاحظہ فرمائیں۔

  1. Cr. L. J 1992 ضمیمہ ۔ ا ے                   Nasir Ahmad V. State

کربلائے است سیر ہر آنم             صد حسین است در گریبانم

(ترجمہ) کربلا ہر وقت میری سیرگاہ ہے اور سو حسین میرے گریبان میں ہیں (نزول المسیح صفحہ نمبر 99 روحانی خزائن جلد نمبر 18 صفحہ نمبر 477)

-2 وقالوا اعلی الحسنین فضل نفسہ اقول نعم واللہ ربی سیظھر۔(ترجمہ) ’’اور انہوںنے کہا کہ اس شخص نے امام حسن اور امام حسین سے اپنے تئیں اچھا سمجھا۔ میں کہتا ہوں کہ ہاں اور میرا خدا عنقریب ظاہر کر دے گا۔‘‘

 (اعجاز احمدی ص52 روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 164)

-3نسیتم جلال اللہ والمجد والعلی وما وردکم الا حسین اتنکر فھذا علی الاسلام احدی المصائب لدی نفحات المسک قذر مقنطر

(ترجمہ) ’’تم نے خدا کے جلال اور مجد کو بھلا دیا اور تمہارا ورد صرف حسین ہے۔ کیا توُ انکار کرتا ہے پس یہ اسلام پر ایک مصیبت ہے۔ کستوری کی خوشبو کے پاس گوہ کا ڈھیر ہے۔‘‘

(اعجاز احمدی ص 82 ضمیمہ نزول المسیح روحانی خزائن جلد نمبر 19 صفحہ 194 )

-4’’اے قوم شیعہ: اس پر اصرار مت کرو کہ حسین تمہارا منتجی ہے‘ کیونکہ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ آج تم میں ایک ہے کہ اس حسینؓ سے بڑھ کرہے۔‘‘

(دافع البلاء صفحہ 13‘ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 233)

-5 ’’افسوس: یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ قرآن نے تو امام حسین کو ابنیت کا درجہ بھی نہیں دیا بلکہ نام تک مذکور نہیں‘ ان سے تو زید ہی اچھا رہا جس کا نام قرآن میں موجود ہے …… میں مسیحِ موعود نبی اور رسول ہوں۔ اب سوچنے کے لائق ہے کہ امام حسین کو مجھ سے کیا نسبت ہے؟‘‘   (نزول المسیح صفحہ نمبر 45 مندرجہ روحانی خزائن ج 18 ص 424‘ از مرزا قادیانی)

-6 ’’تم نے مشرکوں کی طرح حسین کی قبر کا طواف کیا پس وہ تمہیں نہ چھڑا سکا اور نہ مدد کر سکا… تم نے کشتہ سے نجات چاہی جو نو میدی سے مر گیا… اور بخدا اس کی شان مجھ سے کچھ زیادہ نہیں۔ میرے پاس خدا کی گواہیاں ہیں پس تم دیکھ لو اور میں خدا کا کشتہ ہوں۔ لیکن تمہارا حسین دشمنوں کا کشتہ ہے۔‘‘

   (اعجاز احمدی صفحہ 80‘81 مندرجہ روحانی خزائن ج 19 ص192‘ 193درثمین عربی صفحہ 240‘ 241)

-7 ’’امام حسین نے جو بھاری نیکی کا کام دنیامیں آکر کیا‘ وہ صرف اس قدر ہے کہ ایک دنیادار کے ہاتھ پر انہوں نے بیعت نہ کی اور اس کشاکش کی وجہ سے شہید ہو گئے … اگر ہم امام حسین کی خدمات کو لکھنا چاہیں تو کیا ان دو تین فقروں کے سوا کہ وہ انکار بیعت کی وجہ سے کربلا میں روکے گئے اور شہید کیے گئے۔ کچھ اور بھی لکھ سکتے ہیں؟‘‘ (رسالہ تشحیذ الاذہان نمبر 2 جلد نمبر 1 مرتبہ مرزا محمود)

    (1992  P. Cr. L. J. 2351 to 2360)

ہم شہادت حسین ؓ کتنے جوش و خروش سے بیان کرتے ہیں کہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ناناجان صلی اﷲ علیہ وسلم کے دین کے تحفظ کی خاطر ، حق کی سر بلندی کی خاطر میدان کربلا کو اپنے خاندان کے خون سے رنگین ہوتے دیکھا. اپنے جگر کے ٹکڑوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرا دیا بالاخر اپنا سر بھی قلم کرادیا ، لیکن اپنے نانا جان صلی اﷲ علیہ وسلم کے دین پر آنچ نہ آنے دی ۔دعویٰ ہمارا یہ ہے کہ ہم اسلام کے سپاہی ہیں ۔ہم اسلام کے کیسے سپاہی ہیں ؟ اسلام پر تو قادیانی حملہ آور ہیں اورہم آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں ۔ حضرات اہل بیت کرام ؓ کی شان میں ایسی توہین کرنے والوں کے ساتھ ہماری دوستیاں یارانے کیا مطلب رکھتے ہیں ؟ان کے ساتھ اقتصادی ومعاشی و معاشرتی ا ور سیاسی تعلقات استوار کرکے ہم کس طرح اہل بیت ؓ سے محبت اور وفاداری کا دعویٰ کر سکتے ہیں ؟اور اگر ہم ان تمام باتوں کا علم ہو جانے کے بعد بھی اپنے تعلقات ان قادیانیوں سے رکھ رہے ہیں تو کیا ہم بے حس نہیں ہیں تو اور کیا ہیں ؟  کیا سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے احسانات کا بدلہ یہی ہے ؟  کیا شہید کربلا کی غلامی کا حق یہی ہے ؟  اے مسلمان تیری غیرت کہاں سو گئی ؟