• Home
  • >
  • Articles
  • >
  • FAQS
  • >
  • کیا مرزا یزیدی؟ اور کادیان پلید جگہ ہے؟ مفسر بننے، صاحب تقویٰ ہونے کا معیار مرزاقادیانی کو ماننا؟کیا مرزاقادیانی کی بڑھتی ہوئی ترقی معکوس ہوگئی؟
Language:

کیا مرزا یزیدی؟ اور کادیان پلید جگہ ہے؟ مفسر بننے، صاحب تقویٰ ہونے کا معیار مرزاقادیانی کو ماننا؟کیا مرزاقادیانی کی بڑھتی ہوئی ترقی معکوس ہوگئی؟

کیا مرزا یزیدی؟ اور قادیان پلید جگہ ہے؟

سوال نمبر:73…   مرزاقادیانی تحریر کرتا ہے: ’’واضح ہو کہ دمشق کے لفظ کی تعبیر میں میرے پر منجانب اﷲ یہ ظاہرکیاگیا ہے کہ اس جگہ ایسے قصبے کا نام دمشق رکھاگیا ہے۔ جس میں ایسے لوگ رہتے ہوں جو یزیدی الطبع ہیں اور یزید پلید کی عادات اور خیالات کے پیرو ہیں۔ جن کے دلوں میں اﷲ اور رسول کی کچھ محبت نہیں اور احکام الٰہی کی کچھ عظمت نہیں۔ جنہوں نے اپنی نفسانی خواہشوں کو معبود بنارکھا ہے اور اپنے نفس امارہ کے حکموں کے ایسے مطیع ہیں کہ مقدسوں اور پاکوں کا خون بھی ان کی نظر میں سہل اور آسان امر ہے اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔‘‘

 (ازالہ اوہام ص66،67 حاشیہ، خزائن ج3ص135،136)

مرزاقادیانی نے اپنا الہام بیان کیا کہ: ’’اخرج منہ الیزیدیون یعنی اس میں یزیدی لوگ پیدا کئے گئے ہیں۔‘‘

(ازالہ اوہام ص72 حاشیہ، خزائن ج3 ص138)

’’اخرج‘‘ کا معنی پیدا کئے گئے؟ چلو جانے دیں۔ پیدا ہوئے قادیان میں مرزاقادیانی بھی کیا وہ بھی یزیدی؟ چلو اسے بھی جانے دیں۔ حیرت تویہ ہے کہ مرزاقادیانی اس کتاب میں لکھتا ہے کہ: ’’کشف میں دیکھا میرا بھائی مرزاغلام قادر قرآن مجید میں پڑھ رہا ہے۔ ’’انا انزلناہ قریباً من القادیان‘‘ تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ ہاں واقعی طور پر قادیان کا نام قرآن شریف میں درج ہے اور میں نے کہا کہ تین شہروں کا نام قرآن شریف میں درج کیاگیا ہے۔ مکہ، مدینہ اور قادیان۔‘‘

(ازالہ اوہام ص77 خزائن ج3ص140 حاشیہ)

پہلی عبارت میں قادیان کو دمشق سے تشبیہ دے کر ان کی مذمت کی۔ دوسری عبارت میں مکہ، مدینہ کے ساتھ تشبیہ دے کر اس کو مقدس بنایا تو ان دونوں باتوں سے کون سی بات صحیح ہے؟۔

پھر اگر یہ پلید جگہ ہے تو پلید لوگوں! خود بدولت کا آنا، ایسے لوگ تھے اس کے آباؤ اجداد چلو مرزاقادیانی کو مبارک ہو اور اگر یہ مقدس شہر ہے تو پھر وہ جو دمشق والی تاویل کر کے خود مسیح بنے تھے وہ ختم ہوگئی۔ چلو یہ بھی مرزاقادیانی کو مبارک ہو؟

 مفسر بننے، صاحب تقویٰ ہونے کا معیار مرزاقادیانی کو ماننا؟

سوال نمبر:74…   ڈاکٹر عبدالحکیم پٹیالوی مرزاقادیانی کے مرید تھے۔ انہوں نے تفسیر لکھی تو مرزاقادیانی نے اس کی تعریف میں کہا۔ ’’ڈاکٹر صاحب (عبدالحکیم پٹیالوی) کی تفسیر القرآن بالقرآن ایک بے نظیر تفسیر ہے۔ جس کو ڈاکٹر عبدالحکیم خان بی۔اے نے کمال محنت کے ساتھ تصنیف فرمایا ہے۔ نہایت عمدہ شیریں بیان اس میں قرآنی نکات خوب بیان کئے گئے ہیں۔ یہ تفسیر دلوں پر اثر کرنے والی ہے۔‘‘                                                                                               (اخبار بدر مورخہ 9؍اکتوبر 1906ء)

یہی ڈاکٹر صاحب مرزاقادیانی کے کرتوت دیکھ کر مرزاقادیانی سے باغی ہوگئے۔ مرزاقادیانی اور قادیانیت پر چار حرف بھیج کر مسلمان ہوگئے تو اب اس تفسیر کے متعلق کہا۔ ’’ڈاکٹر عبدالحکیم خان صاحب کا اگر تقویٰ صحیح ہوتا تو وہ کبھی تفسیر لکھنے کا نام نہ لیتا۔ کیونکہ وہ اس کا اہل ہی نہیں تھا۔ اس کی تفسیر میں ذرہ برابر روحانیت نہیں اور نہ ہی ظاہری علم کا حصہ۔‘‘                                                                                                                                                              (اخبار بدر مورخہ7؍جون 1906ء)

قادیانی حضرات! اس دورخے شخص کا رخ صحیح کردیں۔ کیا اب بھی مرزاقادیانی کے دجل وفریب میں کوئی شبہ ہے؟ نیز یہ بتائیں کہ جو شخص مرزاقادیانی کو مانتا ہو وہ صاحب علم بھی ہے اور تفسیر لکھنے کا اہل بھی؟ اور جو نہ مانے تو وہ بے علم ہے۔ تفسیر لکھنے کا اہل بھی نہیں اور اس میں تقویٰ بھی نہیں؟ کیا تقویٰ اور تفسیر لکھنے، اہل علم میں سے ہونے کے لئے معیار مرزاقادیانی ہے؟۔ اگر معیار مرزا قادیانی کو ماننا ہے تو کیا سابقہ تیرہ صدیوں کے مفسرین جنہوں نے مرزا قادیانی کا نام بھی نہیں سنا تھا وہ قابل اعتماد رہے یا نہیں؟۔

کیا مرزاقادیانی کی بڑھتی ہوئی ترقی معکوس ہوگئی؟

سوال نمبر:75…   مرزاقادیانی نے تحریر کیا کہ: ’’تین ہزار یا اس سے بھی زیادہ اس عاجز کے الہامات کی مبارک پیش گوئیاں جو امن عامہ کے مخالف نہیں پوری ہوچکی ہیں۔‘‘

(حقیقت المہدی ص15، خزائن ج14 ص441)

یہ تحریر اس کی مورخہ ۲۱؍فروری ۱۸۹۹ء کی ہے۔ دیکھئے (خزائن ج۱۴ ص۴۷۲) لیکن اس تحریر کے پونے تین سال بعد مورخہ 5؍نومبر 1901ء میں (ایک غلطی کا ازالہ ص6، خزائن ج18 ص210) تحریر کیا: ’’پس میں جب کہ اس مدت تک ڈیڑھ سو پیش گوئی کے قریب خدا کی طرف سے پاکر بچشم خود دیکھ چکا ہوں کہ صاف طور پر پوری ہوگئیں۔‘‘

اب ہمارا قادیانیوں سے سوال ہے کہ مورخہ 21؍فروری 1899ء میں مرزاقادیانی کی تین ہزار پیش گوئیاں پوری ہوچکی تھیں۔ اس کے پونے تین سال بعد پوری شدہ پیش گوئیوں کی تعداد ڈیڑھ سو ہوگئی۔ یہ ترقی معکوس کے علاوہ مرزاقادیانی کے کذب پر کھلا نشان نہیں؟ کیا قادیانی مرید ان عبارتوں کے واضح تضاد وکذب بیانی سے مرزاقادیانی کے دامن کو بچا سکتے ہیں؟