Language:

قادیانیوں سےمکمل بائیکاٹ پر بریلوی متکبہ فکر کا موقف حصہ سوم

بد مذہبوں(قادیانیوں) کے ساتھ بائیکاٹ کے متعلق چند احادیث مبارکہ بیان کی جاتی ہے۔

حدیث نمبر1:        ’’حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آخری زمانہ میں کچھ لوگ کذاب دجال بہت جھوٹے دھوکہ باز آئیں گے۔ وہ تم سے ایسی باتیں کریں گے جو نہ تم نے سنی ہوں گی اور نہ تمھارے باپ دادا نے سنی ہوں گی لہٰذا اے میری امت تم ان کو اپنے سے بچاؤ اور اپنے آپ کو ان سے بچاؤ کہیں وہ تمھیں گمراہ نہ کر دیں کہیں وہ تمھیں فتنہ میں نہ ڈال دیں۔‘‘  (مسلم شریف جلد1 صفحہ10 باب النھی عن الردایۃ الخی)

سبحان اللہ!کیا شان ہے تاجدار مدینہ صلی اﷲ علیہ وسلم کی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے نور نبوت سے پہلے ہی دیکھ لیا کہ دین کے ڈاکو آئیں گے۔ بھولے بھالے مسلمانوں کو اَن سنی اور بناوٹی باتیں سنا کر اپنے دجل وفریب سے ان کا ایمان لوٹیںگے۔ لہٰذا اس شفیق امت صلی اﷲ علیہ وسلم نے پہلے سے ہی امت کو بچنے کی تدبیر بتائی کہ اے میری امت بے دینوں کے قریب مت بھٹکنا اور نہ ان کو اپنے قریب آنے دینا ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے۔ لیکن امت کے کچھ بے لگام افراد ہیں جو کہتے پھرتے ہیں جی صاحب ہر کسی کی بات سننی چاہیے دیکھیں بھلا کہتے کیا ہیں۔ اسی بنا پر بد مذہبوں (قادنیوں) کے جلسوں پر جانے والے ان کا لٹر یچر پڑھنے والے ان کی تقریریں سننے والے ہزاروں لوگ گمراہ بددین ہوگئے۔ جہنم کا ایندھن بن گئے۔ حسبنا اللّٰہ ونعم الو کیل ولا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم۔

اے میرے مسلمان بھائیو ہوشیار، خبردار،ہوشیار، خبردار غیروں کے جلسوں میں مت جاؤ۔ ان کی تقریریں مت سنو! ان کے رسائل واخبارات مت پڑھو ورنہ پچھتاؤ گے۔ اگر تقریریں سنو تو اس کی جس کا دل عشق مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم سے لبریز ہے۔ کتابیں اور رسالے پڑھو تو ان کے جن کے سینے عشق مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم سے معمور ہیں۔ سیدنا محمد بن سیرینؓ کے متعلق منقول ہے۔ ’’یعنی حضرت ابن سیرینؓ بیٹھے تھے کہ دو بد مذہب (اہل بدعت) آئے اور انھوں نے عرض کیا حضرت اجازت ہو تو ہم آپ کو ایک حدیث پاک سنائیں آپ نے فرمایا نہیں، پھر انہوں نے عرض کیا اجازت ہو تو ہم قرآن پاک کی آیت پڑھ کر سنائیں آپ نے فرمایا ہر گز نہیں یا تو تم یہاں سے اٹھ کر چلے جاؤیا میں اٹھ کر چلاجاتا ہوں اس پر دونوں خائب وخاسر ہو کر چلے گئے تو کسی نے عرض کیا حضور اس میں کیا حرج تھا کہ وہ آدمی قرآن پاک کی کوئی آیت پاک سناتے اس پر حضرت سیدنا محمد بن سیرین قدس سرہ نے فرمایا کہ یہ دونوں بد مذہب تھے اگر یہ آیت پاک بیان کرتے وقت اپنی طرف سے اس میںلچر لگا دیتے تو مجھے ڈرتھا کہ کہیں وہ تحریف میرے دل میں بیٹھ جاتی(اور میں بھی بد مذہب ہو جاتا) ۔

سبحان اللہ! وہ امام ابن سیرین جلیل القدر محدث قوم کے پیشوا۔ وقت کے علامہ، علم کا ٹھا ٹھیں مارتا سمندر، وہ تو بد مذہبوں سے اتنا پرہیز کریں کہ قرآن پاک کی آیت ان سے سننے کے روادار نہیں اور آج کے اَن پڑھ دین سے بے خبر اتنی بے باکی اور جرأت سے کہہ دیتے ہیں کہ جی صاحب ہر کسی کی بات سننی چاہیے۔ ولا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم۔

یونہی حضرت سعید بن جبیرؓ سے کسی نے کوئی بات پوچھی تو آپ نے اس کو جواب نہ دیا۔ فقیل لہ فقال ازایشان  کسی نے عرض کیا کہ حضرت آپ نے اس کو جواب کیوں نہیں دیا۔ تو آپ نے فرمایا یہ بد مذہبوں میں سے تھا۔

حدیث پاک نمبر 2 …… ’’یعنی رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا قضا وقدر کو جھٹلانے والے اس امت کے مجوسی ہیں (حالانکہ وہ نمازیں بھی پڑھتے ہیں روزے بھی رکھتے ہیں) (قادنیوں کی طرح) فرمایا کہ اگر وہ بیمار پڑیں تو ان کو پوچھنے مت جاؤ اور اگر وہ مرجائیں تو ان کے مرنے پر ان کے جنازہ وغیرہ میں مت شریک ہو اگر تم سے ملیں تو ان کو سلام مت کرو۔ (ابن ماجہ شریف ص ۱۰ باب فی القدر)

بزرگانِ دین کے ارشادات

حضرت سیدنا سہیل تستری رضی اﷲ عنہ نے فرمایا م’’ یعنی جس شخص نے اپنا ایمان درست کیا اور اپنی توحید کو خالص کیا وہ کسی بد مذہب (بدعتی) سے انس و محبت نہ کرے گا، نہ اس کے پاس بیٹھے گا نہ اس کے ساتھ کھائے پیئے گا نہ اس کے ساتھ آئے گا بلکہ اپنی طرف سے اس کے لیے دشمنی اور بغض ظاہر کرے گا‘‘۔ (روح المعانی ج ۲۸ ص ۳۵)    نیز فرمایا’’یعنی جو شخص کسی بد مذہب (بدعتی) کے ساتھ خوش طبعی کرے، خدا تعالیٰ اس کے دل سے نور ایمان نکال لے گا۔ جس بندے کو اس بات کا اعتبار نہ آئے وہ تجربہ کر کے دیکھ لے۔ ‘‘  (روح المعانی ج ۲۸ ص ۳۵)

تفسیر روح البیان میں ہے۔ ’’وفات کے بعد کوئی شخص خواب میں سید نا ابن مبارکؓ کی زیارت سے مشرف ہوا او رعرض کیا حضرت خدا تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا کیا تو فرمایا مجھے عتاب فرمایا اور مجھے تیس سال ایک روایت میں ہے تین سال کھڑے کیا اور اس عتاب کا سبب یہ کہ میں نے ایک دن ایک بد مذہب (بدعتی) کی طرف شفقت سے دیکھا تھا۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا اے ابن مبارک تو نے میرے ایک دین کے دشمن کے ساتھ دشمنی کیوں نہیں کی۔ ‘‘ (روح البیان ص۴۱۹ ض ۴)  یہ واقعہ لکھنے کے بعد صاحب تفسیر روح البیان فرماتے ہیںپس کیا حال ہوگااس شخص کا جو دیدہ دانستہ دین کے ظالموں کے پاس بیٹھتا ہے۔  (روح البیان ج ۴ ص ۴۲۰ )

عارف باللہ حضرت علامہ حقی رحمتہ اﷲ علیہ کا ارشاد مبارک’’یعنی براہمنشین انسان کو دوزخ کی طرف کھینچ کر لے جاتا ہے اور اسے ہلاکت کے گڑھے میں ڈال دیتا ہے لہٰذا مخلص اور سنی مومن کو چاہیے کہ وہ کافروں منافقوں اور بدمذہبوں (بدعتیوں) کی صحبت سے بچے تا کہ اس کی طبعیت میں ان کا بدعقیدہ اور براعمل سرایت نہ کر جائے۔ (روح البیان ج ۴ص ۴۹۴)coral

نیز عارف باللہ علامہ حقی نے فرمایا ’’ یعنی حدیث پاک میں ہے کہ جو شخص کسی قوم سے محبت کرے گا ان کے کسی عمل کو پسند کرے گا وہ اسی کے ساتھ اٹھایا جائے گا اور اس قوم کے ساتھ حساب میں شریک ہوگا۔ اگرچہ اس کے ساتھ اعمال میں شریک نہیں تھا۔ ‘‘ (روح البیان ج 9 ص494)

نیز تفسیرروح البیان میں ہے۔یعنی خدا تعالیٰ کے دشمنوں پر سختی کرنا یہ بھی حسن خلق میں داخل ہے اس لیے کہ جب سب مہربانوں سے مہربان آقا کو اعدائے دین پر سختی کرنے کا حکم ہے تو دوسرے کا کیا شمار۔ لہٰذا دشمنانِ دین پر سختی کرنا یہ دوستوں پر مہربانی کے منافی نہیں ہے۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ صحابہ کرام کی مدح کرتے ہوئے فرماتا ہے وہ دشمنوں پر بڑے سخت ہیں اور اپنوں پر بڑے مہربان۔‘‘(روح البیان ج ۱۰ ص ۶۷) ’’

حضرت سیدنا فضیل بن عیاض رضی اﷲ عنہ کا ارشاد گرامی ہے ’’ یعنی جس کسی نے بد مذہب (بدعتی) سے محبت کی، خدا تعالیٰ اس کا عمل برباد کردے گااور اس کے دل سے نور ایمان نکال دے گا‘‘۔ (غنیۃ الطالبین جلد1صفحہ80)  نیز فرمایا ’یعنی خدا تعالیٰ جب دیکھتا ہے کہ فلاں بندہ بد مذہبوں (بدعتیوں جیسے قادیانیوں) سے بغض رکھتا ہے مجھے اُمید ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے گناہ بخش دے گا اگرچہ اس کی نیکیاں تھوڑی ہوں۔‘‘ (غنیۃ الطالببین جلد1صفحہ80)’

حضرت سفیان بن عیینہ رضی اﷲ عنہ کا ارشاد گرامی ہے ’’یعنی جو شخص کسی بد مذہب(بدعتی) کے جنازہ میں گیا وہ لوٹنے تک خدا تعالیٰ کی ناراضگی میں رہے گا۔‘‘ (غنیۃ الطالبین جلد1صفحہ80)

سرکار غوث اعظم محبوب سبحانی قطب ربانیؓ کا ارشاد مبارک ’’یعنی بد مذہبوں (بدعتی جیسے قادیانی) کے (جلسوں وغیرہ میں شرکت کر کے) ان کی رونق نہ بڑھائے اور ان کے قریب نہ آئے اور ان پر سلام نہ کرے۔‘‘(غنیۃ الطالبین جلد1صفحہ80)  نیز فرمایا ’’یعنی بدمذہبوں (جیسے قادیانی) کے ساتھ نہ بیٹھے اور ان کے قریب نہ جائے اور نہ ہی انہیں عید وغیرہ شادی کے موقع پر مبارک دے اور جب وہ مرجائیں تو ان کا جنازہ نہ پڑھے اور جب ان (جیسے قادیانیوں) کا ذکر ہو تو رحمۃ اللہ علیہ نہ کہے بلکہ ان سے الگ رہے اور ان سے خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے عداوت رکھے یہ اعتقاد کرتے ہوئے کہ ان کا مذہب باطل ہے اور ایسا کرنے میں ثواب کثیر اور اجر عظیم کی امید رکھے۔‘‘ (غنیۃ الطالبین جلد1صفحہ80)

امیرالمومنین سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نماز مغرب پڑھ کر مسجد میں تشریف لائے تھے کہ ایک شخص نے آواز دی کون ہے جو مسافر کو کھانا کھلائے۔ سیدنافاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے خادم سے فرمایا اس کو ساتھ لے آئو وہ لے آیا۔ فاروق  اعظم رضی اﷲ عنہ نے اسے کھانا منگا کر دیا اس نے کھانا شروع کیا اس کی زبان سے ایک بات نکلی جس سے بد مذہبی کی بو آتی تھی آپ رضی اﷲ عنہ نے فورا اس کے سامنے سے کھانا اٹھوا لیا اور اس کو نکال دیا۔ (ملفوظات مولانا احمد رضا خانؒ حصہ اول صفحہ107)

پھر یہ کہ خدا تعالیٰ کے نافرمانوںاور مخالفوں (قادیانیوں) کے ساتھ بائیکاٹ کرنا یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ بائیکاٹ پہلی امتوں سے چلا آتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے۔ وسئلھم عن القریۃ الّتی کانت حاضرۃ البحرماذ یعدون فی السبت اذ تاتیھم حیتانھم یوم سبتھم شرّعا وّ یوم لا یسبتونلا لا تاتیھمج (الاعراف 163)

’’یعنی اصحاب سبت جن کی بستی دریا کے کنارے واقع تھی انہوں نے ہفتہ کے دن مچھلیاں پکڑ کر خدا اور اس کے نبی کی نافرمانی کی تو اس قوم کے تین گروہ ہوگئے۔ ایک گروہ نافرمانی کرنے والا دوسرا برائی سے روکنے والا تیسرا خاموش آخر فرمانبردارگروہ نے نافرمانوں سے ایسا بائیکاٹ کیا کہ درمیان میں دیوار کھڑی کردی نہ یہ ادھر جاتے نہ وہ ادھرآتے۔ جب نافرمانوںکی نافرمانی حد سے بڑھ گئی تووہ بندر بنا کر ہلاک کر دئیے گئے۔ (تفسیر مظہری جلد سوم سورۃ اعراف صفحہ467، تفسیر روح المعانی سورہ اعراف جلد9صفحہ82)

پھر طرفہ یہ کہ ہر نمازی نماز وتر کی دعامیں پڑھتا ہے۔ ونخلع ونترک من یفجرک یا اللہ ہم ہر اس شخص سے قطع تعلقی کریں گے اور علیحدہ ہوجائیں گے جو تیرا نافرمان ہے۔ عجیب معاملہ ہے کہ مسلمان مسجد میں دربارِ الٰہی میں کھڑا ہو کر مودبانہ ہاتھ باندھ کر عہد کرتا ہے کہ یا اللہ ہم تیرے نافرمانوں مخالفوں کے ساتھ بائیکاٹ کریں گے لیکن مسجد سے باہر آکر ساری باتیں بھول جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ عہد پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

تتمہ نمبر1… یہ تھا دنیا میں مسلمانوں کا خدا تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب علیہ الصلوۃ والسلام کے دشمنوں کے ساتھ بائیکاٹ لیکن قیامت کے دن خد اتعالیٰ کی طرف سے بائیکاٹ ہوگا۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے۔  ’’یعنی قیامت کے دن (جب پل صراط سے گذر ہوگا اور خد اتعالیٰ ایمان والوں کو نور عطا فرمائے گا) اس نور کو دیکھ کر منافق مرد اور عورتیں ایمان والوں سے کہیں گے کہ ہمیں ایک نگاہ دیکھو کہ ہم تمہارے نور سے کچھ حصہ لیں اس پر فرمایا جائے گا اپنے پیچھے لوٹو وہاں نور ڈھونڈو پھر جب وہ لوٹیں گے تو ان کے درمیان دیوار کھڑی کردی جائی گی جس کا ایک دروازہ ہوگا۔ اس کے اندر ایک طرف رحمت ہوگی اور باہر کی طرف عذاب ہوگا‘‘ (حدید13)۔یعنی دیوار کے ذریعہ ایسا مکمل بائیکاٹ کردیا جائے گا کہ منافق لوگ ایمان والوں کے نور کی روشنی بھی نہ لے سکیں گے۔

نمبر 2… جب قیامت کا دن ہوگا تو خدا تعالیٰ کی طر ف سے اعلان ہوگا۔ وامتازوالیوم ایھا المجرمون۔ (یٰسین59) یعنی اے نافرمانو، کافرو آج میرے بندوں سے الگ ہوجائو۔ خدا تعالیٰ سب کو دین اسلام کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

مسلمان بھائیوںسے اپیل:

میرے مسلمان بھائیو تاجدار مدینہ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بھولے بھالے امتیو ہوشیار، خبردار، ہوشیار، خبردار اپنے ایمان کو بچائو۔ اپنے بیگانوں کو پہچانو اور اگر شیطان دھوکہ دینے کی کوشش کرے تو مندرجہ بالا ارشادات کو بار بار پڑھو خدا تعالیٰ دوست و دشمن کی پہچان نصیب کرے۔ ان ارید الاصلاح مااستعطت وما توفیقی الا باللہ۔

طالب دعا: سنگ دربار سلطانی فقیر ابو سعید محمدامین غفرلہٗ                     3جمادی الآخری 1394ھ