Language:

مرزا کادیانی خود ہی زچہ خودہی بچہ؟؟؟

مرزا کادیانی نے جب یہ دعویٰ کیا کہ وہ وہی عیسیٰ ابن مریم ہے جس کے آنے کا ذکر احادیث مبارکہ میں موجود ہے ۔ لوگوں نے بہت سے اعتراض کئے ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ وہ عیسیٰ بیٹے ہیں ابن مریم علیہا السلام کے اور تو بیٹا ہے مائی گھسیٹی کا ۔مرزا کادیانی نے اس اعتراض کو دور کرنے کے لئے کافی سوچ بچار کے بعد ایک بہت خوب کہانی تیار کی ۔ اس کہانی کو پڑھنے کے بعدلوگوں کا اعتراض تو دور نہیں ہوتامگرایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اس میںدور پاگل خانے نہیں تھے جہاں سے مرزا کادیانی کا علاج ہو جاتا۔ اور اگر مرزا کادیانی پاگل نہیں ہے تو پھر وہ مرد ہے یا عورت ۔قارئین کرام اب آ پ مرزا کادیانی کی گھڑی ہوئی کہانی ملاحظہ کریں ۔
”سورۂ تحریم میں صریح طور پر بیان کیا گیا ہے(کادیانی ذرہ وہ آیت تو بتا دیںازمولف) کہ بعض افراد اس امت کا نام مریم رکھا گیا ہے اور پھر پوری اتباع شریعت کی وجہ سے اس مریم میں خدا تعالیٰ کی طرف سے روح پھونکی گئی اور روح پھونکنے کے بعد اس مریم سے عیسیٰ پیدا ہو گیا اور اسی بناء پر خدا تعالیٰ نے میرا نام عیسیٰ بن مریم رکھا کیونکہ ایک زمانہ میرے پر صرف مریمی حالت کا گزرا۔ اور پھر جب وہ مریمی حالت خدا تعالیٰ کو پسند آ گئی تو پھر مجھ میں اُس کی طرف سے ایک روح پھونکی گئی۔ اس روح پھونکنے کے بعد میں مریمی حالت سے ترقی کر کے عیسیٰ بن گیا، جیسا کہ میری کتاب براہین احمدیہ حصصِ سابقہ میں مفصل اس بات کا تذکرہ موجود ہے کیونکہ براہین احمدیہ حصصِ سابقہ میں اول میرا نام مریم رکھا گیا۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: یا مریم اسکن انت و زوجک الجنة یعنی اے مریم! تو اور وہ جو تیرا رفیق ہے، دونوں بہشت میں داخل ہو جائو۔ اور پھر اسی براہین احمدیہ میں مجھے مریم کا خطاب دے کر فرمایا ہے: نفخت فیک من روح الصدق یعنی اے مریم! میں نے تجھ میں صدق کی روح پھونک دی۔ پس استعارہ کے رنگ میں روح کا پھونکنا اس حمل سے مشابہ تھا جو مریم صدیقہ کو ہوا تھا۔ اور پھر اس حمل کے بعد آخر کتاب میں میرا نام عیسیٰ رکھ دیا، جیسا کہ فرمایا کہ یا عیسٰی انی متوفیک و رافعک الیّ۔ یعنی اے عیسیٰ میں تجھے وفات دوں گا اور مومنوں کی طرح میں تجھے اپنی طرف اٹھائوں گا اور اس طرح پر میں خدا کی کتاب میں عیسیٰ بن مریم کہلایا۔ چونکہ مریم ایک امتی فرد ہے اور عیسیٰ ایک نبی ہے۔ پس میرا نام مریم اور عیسیٰ رکھنے سے یہ ظاہر کیا گیا کہ میں امتی بھی ہوں اور نبی بھی۔ مگر وہ نبی جو اتباع کی برکت سے ظلی طور پر خدا تعالیٰ کے نزدیک نبی ہے اور میرا نام عیسیٰ بن مریم ہونا وہی امر ہے جس پر نادان اعتراض کرتے ہیں کہ حدیثوں میں تو آنے والے عیسیٰ کا نام عیسیٰ بن مریم رکھا گیا ہے۔ مگر یہ شخص تو ابن مریم نہیں ہے اور اس کی والدہ کا نام مریم نہ تھا اور نہیں جانتے کہ جیسا کہ سورۂ تحریم میں وعدہ تھا میرا نام پہلے مریم رکھا گیا اور پھر خدا کے فضل نے مجھ میں نفخِ روح کیا۔ یعنی اپنی ایک خاص تجلی سے اس مریمی حالت سے ایک دوسری حالت پیدا کی اور اس کا نام عیسیٰ رکھا۔”

(براہین احمدیہ (ضمیمہ) ص 189 مندرجہ روحانی خزائن ج 21 ص 361 از مرزا قادیانی)


قارئین کرام! مرزا کادیانی نے اپنے ”عیسیٰ” بننے کی کہانی جس مضحکہ خیز انداز میں پیش کی، اس پر ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ ملاحظہ فرمائیں:
ڈاکٹر نے پاگل خانے میں آنے والے نئے مریض کا معائنہ کیا۔ وہ مریض ڈاکٹر صاحب کو صحت مند دکھائی دیا۔ڈاکٹر ”کیوں میاں کیسے پہنچے؟”
مریض: دراصل کچھ عرصہ قبل میں نے ایک بیوہ سے شادی کر لی۔ عورت کی ایک جواں سال بیٹی بھی تھی۔ اتفاق سے وہ لڑکی میرے باپ کو پسند آ گئی۔ میرے باپ نے اس سے نکاح کر لیا۔ یوں میری بیوی میرے باپ کی ساس بن گئی۔ کچھ عرصہ بعد میرے باپ کے گھر ایک بچی پیدا ہوئی۔ یہ رشتے میں میری بہن لگتی تھی کیونکہ میں اس کے باپ کا بیٹا تھا۔ دوسری طرف وہ میری نواسی بھی لگتی تھی، کیونکہ میں اس کی نانی کا خاوند تھا۔ گویا میں اپنی بہن کا نانا بن گیا۔ پھر کچھ مدت کے بعد میرے گھر بیٹا پیدا ہوا، ایک طرف وہ لڑکی میرے بیٹے کی سوتیلی بہن لگتی تھی کیونکہ وہ بچہ اس کی ماں کا بیٹا تھا۔ دوسری طرف وہ اس کی دادی بھی لگتی تھی، کیونکہ وہ میری سوتیلی ماں تھی، چنانچہ میرا بیٹا اپنی دادی کا بھائی بن گیا۔
مریض ”ڈاکٹر صاحب، ذرا سوچئے میرا باپ میرا داماد ہے اور میں باپ کا سسر ہوں۔ میری سوتیلی ماں میرے بیٹے کی بہن ہے اور یوں میرا بیٹا میرا ماموں بن گیا اور میں اپنے بیٹے کا بھانجا۔ڈاکٹر صاحب نے دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ لیا اور چیخ کر کہا ”خاموش ہو جائو، ورنہ میں بھی پاگل ہو جائوں گا۔”
یہ پاگل اس پاگل کے پائے کا تو نہیں لگتا جس کی عبارت اوپر آ پ نے پڑھی ۔عیسیٰ علیہ السلام کی نشانیوں سے متعلق احادیث تواتر کے درجے کو پہنچتی ہیں ۔ان کی بہت سی نشانیاں وضاحت کے ساتھ احادیث میں بیان کر دی گئی ہیں اور وضاحت ہے کہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام ”دوبارہ” تشریف لائیں گے ۔
اب اگر کوئی مرزاکادیانی سے یہ پوچھ لے کہ ! اگرتو نے ”ابن مریم” بننا تھا تو چاہیے یہ تھا کہ تیری والدہ میں پہلے مریمی صفات آتیں، نہ کہ تجھ میں (یہ دوسری بات ہے کہ حقیقی والدہ نہیں تو کوئی مثیل ہی ہوتی) وہی حاملہ ہوتی، وہی اَجَائَ ھَا الْمَخَاضُ کا مصداق بنتی یعنی درد زِہ کی مثالی کیفیت سے اسے ہی واسطہ پڑتا اور پھر اسی سے تیرا ظہور ہوتا، پھر تو شاید کوئی بات بھی بن جاتی لیکن یہ خودہی زچہ خودہی بچہ والا فلسفہ، نہ حکماء اشراقیین پیش کر سکے ہیں نہ مشائین، ایسی نکتہ سنجی تو نہ علماء اسلام کے حصے میں آئی ہے نہ دانایان یورپ کے۔ بہت ممکن ہے کہ اس اعتراض کے جواب میںکادیانی ٹکسال سے نکلنے والے فضلاء کچھ موشگافیاں کرنے لگیں۔ لیکن یہ فلسفہ پیغمبرانہ دعوت کے نام پر عقل و خرد کا منہ چڑانے کے مترادف ہے اور بس۔کسی مسئلہ میںفضولیات سے، جن کی طرف ذہن بھی نہ جاتا ہو،دلیل پکڑنا اور اس باب کی تصدیق شدہ باتوں کو چھوڑ دینا الحاد نہیں تو اور کیا ہے؟ چنانچہ مر زا کادیانی نے الحاد کا راستہ چنا اوروساوس و شبہات کوجمع کر کے انھیں اپنا دین و مذہب بنا لیا ہے ۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلمنے پہیلیوں سے منع فرمایا ہے۔ نھی عن الاغلوطات۔ اور یہاں یہ حال ہے کہ مرزا کادیانی کی دعوت کی بنیادہی پہیلیوں اور لفظی گورکھ دھندوں پر ہے۔ أَفَلَا تَعْقِلُوْنَ؟