Language:

قادیانی۔۔۔۔۔علامہ اقبال کے نزدیک – ڈاکٹر وحید عشرت

قادیانی دجال کے دجل وفروب سے دنیابھر کے انسانوں، مسلمانوں اور خود قادیانیوں کو آگاہ کرنا عین عبادت ہے تاکہ وہ اس گمراہی اور کفروضلالت سے محفوظ رہ سکیں۔ تاجدارِ ختم نبوت جناب رسالت مآب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت اور محبت کا تقاضا ہے کہ ہم ان کی عزت وناموس کی جان و مال سے حفاظت کریں اور سارق تاج ختم نبوت کا ہر کہیں تعاقب کریں۔ مبارک ہیں وہ لوگ جنہوں نے قادیانیت کے خلاف جہاد میں حصہ لیا اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبت کو امر بنادیا۔ ایسے تمام عشاق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دین و دنیا کی بشارتیں ہیں اور مردود ہیں وہ لوگ جو اس قادیانی دجال کو کس بھی درجے میں انسان بھی گردانتے ہیں۔اسلام کے اندر اس فتنہ ارتداد کے بانی مرتد غلام قادیانی کی سزا رجم اور قتل ہونی چاہیے تھی۔ افسوس راجپال تو واصل جہنم ہوگیا مگر مرتدین کی یہ اولاد انگریز کی چھترچھایا تلے قوت پکڑتی رہی اور آج کل بین الاقوامی اسلام دشمن قوتیں اور عالمی صیہونیت اس کی مربی اور پشت پناہ ہے اور وہ پوری دنیا میں کفروضلالت پھیلا رہے ہیں۔ یہ اسرائیل کے ایجنٹ، ہندو کے گماشتے، مغربی طاقتوں کے آلہ کار اور پاکستان اور عالم اسلام کے دشمن نمبر ایک ہیں۔

اقبال نے جن کے قرب و جوامیں قادیانیوں کے گڑھ تھے۔ سب سے پہلے سیاسی، عمرانی اورتہذیبی سطح پر ان کے خطرناک عزائم کا ادراک کیا اور انہیں اسلام اور ہندوستان (مراد مسلم ہندوستان جو آج کل پاکستان ہے) کاغدار قرار دیا۔ اس لیے کہ قادیانی اسلام کے بنیادی عقیدے ختم نبوت کے سارق تھے اور ہندوئوں ،انگریزوں اور یونینسٹوں کے ساتھ مل کر 1935ء کے آئین کی آڑ میں مسلم نشستوں پر قبضہ کر کے تحریک پاکستان کو سبوتاژ کرنا چاہتے تھے۔ اقبال نے اسی بنا پر ان کو کافر قرار دے کر ان کو الگ اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیا جبکہ علماء کرام دینی اور مذہبی حوالے سے ان کے خلاف مورچہ بند تھے۔قادیانی علامہ اقبال کے خلاف یہ پراپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں کہ اقبال نے1935ء میں حضرت سید عطاء اللہ بخاری ؒ جو ختم نبوت کے مجاہدِ اعظم تھے، کے کہنے پر قادیانیوں کے خلاف سرگرمی دکھائی ۔ حالانکہ وہ ان کے بارے میں پہلے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ قادیانیوں کا یہ بیان سراسرجھوٹ ہے۔اقبال نے1902ء سب سے پہلے قادیانیت پر وار کیا۔ 1902ء میں انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں انہوں نے مرزا قادیانی کے دعویٰ نبوت کو جھٹلاتے ہوئے کہا کہ:

اے کہ بعداز تو نبوت شد بہ ہر مفہوم شرک       بزم را روشن ز نور شمع عرفان کردہ

اپنی مرتبہ کتاب ’’سرور رفتہ‘‘ میں صفحہ30پرغلام رسول مہر نے ایک نوٹ میں کہا کہ یہ 1902ء کا کلام ہے اور ظاہر ہے کہ اس کے لکھنے کی ضرورت مرزا غلام احمد قادیانی کے دعویٰ بروزیت کی بنا پر ہوئی۔ یعنی کہتے ہیں کہ تیرے بعد نبوت کا دعویٰ ہر لحاظ سے شرک فی النبوت ہے۔ خواہ اس کا مفہوم کوئی ہو۔ یعنی ظلی اور بروزی نبوت بھی اس سے باہر نہیں۔

مئی1902ء میں مخزن لاہور اور 11جون1902؟ء میں محمد دین فوق کے رسالے پنجہ فولاد میں قادیانی مذہب کے نتائج کا تجزیہ یوں کیا۔ یاد رہے کہ یہ قادیان کی طرف سے بیعت کے جواب میں شعر لکھے۔

تو جدائی پہ جان دیتا ہے                  وصل کی راہ سوچتا ہوں میں

بھائیوں میں بگاڑ ہو جس سے           اس عبادت کو کیا سراہوں میں

مرگ اغیار پر خوشی ہے تجھے        اور آنسو بہا رہا ہوں میں

یاد رہے مرزا قادیانی اپنے مخالفین کی موت پر پیشگوئیاں کرتا رہتا تھا۔

1903ء    انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں ’’فریاد امت‘‘ منعقدہ مارچ1903ء میں اقبال نے ایک نظم پڑھی جس کا دوسرا عنوان ا برگہربار تھا۔ اس میں انہوںنے یہ شعر پڑھا۔

مجھ کو انکار نہیں آمد مہدی سے مگر             غیر ممکن ہے کوئی مثل ہو پیدا تیرا

اقبال نے اس شعر کے ذریعے مرزا قادیانی کے اس دعوے کو رد کردیا کہ وہ مثل مسیح  یا   مثل محمد   ہے۔

1911ء …ملت بیضاپر ایک عمرانی نظر میں انہوں نے قادیانیوں کو ٹھیٹھ اسلامی سیرت کا نمونہ کہنے کے ساتھ ساتھ انہیں نام نہاد قادیانی فرقہ کہا۔ مولانا ظفر علی خان نے اس مقالے کے ترجمے میں ’’So-Called‘‘ نام نہاد کا لفظ غلطی سے چھوڑ دیا جس کو قادیانیوں نے ایکسپلائٹ کیا اور اصل انگریزی مضمون دیکھنے کی کسی نے زحمت نہ کی۔ کیونکہ قادیانیوں نے اس مضمون کا انگریزی ورژن مارکیٹ سے غائب کردیاتھا۔

1914ء …میں اقبال نے لکھا کہ قادیانی جماعت نبی اکرم ؐ کے بعد نبوت کی قائل ہے تو ہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔

1915ء …میں رموز بے خودی شائع ہوئی۔ اقبال نے عقیدہ ختم نبوت کا واشگاف اعلان کیا۔

پس خدا برماشریعت ختم کرو             بررسول ما رسالت ختم کرو

لا نبی بعدی ز احسان خدااست            پردہ ناموس دین مصطفی است

حق تعالیٰ نقش ہر دعویٰ شکست         تا ابد اسلام را شیرازہ بست

1916ء  …اقبال نے1916ء میں ایک بیان میں کہا: ’’جو شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی ایسے نبی کا قائل ہوجس کا انکار مستلزم کفر ہو تووہ خارج از اسلام ہوگا۔ اگر قادیانی جماعت کا بھی یہی عقیدہ ہے تو وہ بھی دائرہ اسلام سے خارج ہے‘‘۔

جون1933ء  …اقبال نے کشمیر میں قادیانیوں کی سازشوں کے بارے میں بیان دیا کہ  ’’آخر میں مسلمانان کشمیر سے استدعا کرتا ہوں کہ وہ ان تحریکوں سے خبردار رہیں جو ان کے خلا ف کام کررہی ہیں اور اپنے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کریں۔‘‘ (7جون1933ء اقبال نامہ، حصہ اول)

20جون1933ء …کو اقبال نے کشمیر میں قادیانیوں کی ریشہ دوانیوں کی بناء پر کشمیر کمیٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔

12 اکتوبر1933ء …کو اقبال نے قادیانی اہل قلم جن میں ڈاکٹر مرزا  یعقوب بیگ پیش پیش تھے کی سازشوں کے خلاف بیان دیا اور کشمیر کمیٹی کے عہدہ صدارت کی پیشکش کو فریب قرار دیا اور کہا کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان حالات کے پیش نظر ایک مسلمان کسی ایسی تحریک میں شامل ہوسکتا ہے جس کا اصل مقصد غیر فرقہ واری کی ہلکی سی آڑ میں کسی مخصوص جماعت کا پراپیگنڈہ کرنا ہے۔‘‘ (حرف اقبال ، صفحہ204)

9 فروری 1934ء …کو نعیم الحق وکیل پٹنہ کو لکھتے ہیں۔جس مقدمے کی پیروی کیلئے میں نے آپ سے درخواست کی تھی، اس کی پیروی چودھری ظفراللہ کریں گے۔ چودھری ظفراللہ خان کیونکر اورکس کی دعوت پر وہاں جارہے ہیں، مجھے معلوم نہیں۔ شاید کشمیر کانفرنس کے بعض لو گ ابھی تک قادیانیوں سے خفیہ تعلقات رکھتے ہیں۔ ‘‘ (اقبال نامہ، صفحہ435)

1935ء…اقبال نے ضرب کلیم میں اپنی نظم جہاد میں قادیانیوں پر تنقید کی۔

فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے    دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر

ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے    مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر

حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات   اسلام کا محاسبہ، یورپ سے درگزر

دوسری نظم نبوت میں لکھتے ہیں:                 وہ نبوت ہے مسلماں کے لئے برگ حشیش        جس نبوت میں نہیں قوت و شوکت کا پیام

ایک نظم امامت میں لکھتے ہیں                     فتنہ ملت بیضا ہے امامت اس کی                    جو مسلمان کو سلاطین کا پرستار کرے

انگریز کی قادیانیوں کی چاکری پر لکھتے ہیں

ہو اگر قوت فرعون کی درپردہ مرید    قوم کے حق میں ہے لعنت وہ کلیم الٰہی

محکوم کے الہام سے اللہ بچائے          غارت گر اقوام سے وہ صورت چنگیز

1936:7 اگست1936ء کو ایک خط میں لکھتے ہیں ’’الحمدللہ کہ اب قادیانی فتنہ پنجاب میں رفتہ رفتہ کم ہورہا ہے۔‘‘

پس چہ باید کرد1936ء میں شائع ہوئی۔ اقبال لکھتے ہیں۔

عصر من پیغمبرے ہم آفرید   آنکہ در قرآں بغیر از خود ندید

شیخ او مرد فرنگی را مرید               گرچہ گوید از مقام بایزید

گفت دیں را رونق ز محکومی است     زندگانی از خودی محرومی است

دولت اغیار را رحمت شمرد  رقص ہا گرد کلیسا کرد و مرد

1937ء قادیانی مذہب از پروفیسر الیاس برنی، موصول ہونے پر اقبال نے لکھا: ’’قادیانی تحریک یایوں کہئے کہ بانی تحریک کا دعویٰ مسئلہ بروز پر مبنی ہے۔ مسئلہ بروز کی تحقیق تاریخی لحاظ سے از بس ضروری ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے، یہ مسئلہ عجمی مسلمانوں کی ایجاد ہے اور اصل اس کی آرین ہے۔ نبوت کا سامی تخیل اس سے بہت ارفع واعلیٰ ہے۔ میری ناقص رائے میں اس مسئلہ کی تاریخی تحقیق قادیانیت کاخاتمہ کردے گی۔‘‘

ہماری اس تحریر سے واضح ہوگیا کہ اقبال نے کسی اضطراری کیفیت میں قادیانیوں کے خلاف مہم جوئی نہیں کی تھی بلکہ ایک پورے تسلسل کے ساتھ 1902ء سے اپنی وفات تک قادیانیت کے خلاف جہاد کیا۔ علمائے عظام نے دینی اور مذہبی محاذ اور اقبال نے عمرانی، تہذیبی، اور سیاسی محاذپر اس کفرستان پر پیہم حملے کئے اور 1935ء میں تحریک پاکستان جو مسلمانوں کی برصغیر میں آزادی کی آخری کوشش تھی، کو سبوتاژ کرنے کی قادیانی کوششوں کی وجہ سے کھل کر انہیں اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیا تاکہ وہ مسلمانوں کی نشستوں پر منتخب ہو کر مسلمانوں کو ہندو اور انگریز کا غلام نہ بنادیں۔ برصغیر میں قادیانی ریاست کی تشکیل کیلئے قادیانیوں نے کبھی پنجاب، کبھی کشمیر اور کبھی بلوچستان کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا جنہیں بندگان خدانے ناکام بنادیا۔

            اقبال کے نزدیک قادیانی…اسلام اور پاکستان کے غدار ہیں۔  یہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں پر ا یک دوسرے کو مبارکبادیں دیتے ہیں اور پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے خلاف بھارت کی حمایت کرتے ہیں اور اسے امن کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں۔