Language:

چودھری ظفر اللہ کادیانی

چودھری ظفراللہ خاں مشہور و معروف سیاست دان، قادیانیت کا ستون اور مثالی انگریز نواز تھے۔ وہ برٹش سامراج کی غلامانہ خدمات اور ان کے خود کاشتہ پودے (قادیانی مذہب) کے سرگرم رکن ہونے کے باعث دنیوی ترقی کی منازل بہت تیزی سے طے کرتے چلے گئے۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں، خاص طور پر قادیانی حضرات تو ان کی بظاہر شاندار زندگی اور بڑے عہدوں پر تعیناتی کو قادیانی مذہب کی حقانیت پر دلیل قرار دیتے ہیں لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ سر ظفر اللہ کی بظاہر شاندار زندگی اندر سے باکل کھوکھلی اور عبرتناک تھی۔ ان کو ساری عمر گھریلو سکون نصیب نہ ہوا۔ ا اس کا حال قارئین درج ذیل سطور میں پڑھیں گے۔

سر ظفراللہ 1893ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مرزا غلام احمد سے متاثر تھے اور قادیان آتے رہتے تھے۔ ظفراللہ بھی کبھی کبھار ان کے ساتھ قادیان جانے لگے۔ حکیم نور الدین کی دور بین نظر نے لڑکے کی صلاحیتوں کو بھانپ لیا اور ان کے والد کوخط لکھا کہ بیٹے کی بیعت کرا دو۔ اس کے خط کے پیش نظر ستمبر 1907ء میں مرزا غلام احمد کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ ابتدائی تعلیم مشن سکول سیالکوٹ میں حاصل کر کے 1911ء میں گورنمنٹ کالج سے گریجویشن کیا۔ 1911ء سے 1914ء تک کنگز کالج کیمبرج انگلینڈ میں پڑھے اور بیرسٹری پاس کی۔ نیز انگلستان، سوئٹزرلینڈ اور جرمنی کا سفر کیا۔ ان  حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ ظفر اللہ بچپن سے ہی مشن سکول، قادیانیت اور برٹش سامراج کے جال میں پھنس گئے۔ نو عمری میں ہی انگلینڈ میں انہیں اپنی خاص نگرانی میں انگریزوں نے اعلیٰ تربیت دی اور پھر ساری عمر اس لڑکے کی عقل، علم، ہوشیاری اور صلاحیتوں کو جس طرح چاہااستعمال کیا۔

 ان کا گھرانہ زمیندارانہ تھا۔ ان کے والد اپنے خاندان کی ایک سیدھی سادی لڑکی سے ان کی شادی کرنا چاہتے تھے۔ جبکہ ظفر اللہ کسی ماڈرن لڑکی سے شادی کرنا چاہتے تھے لیکن والد کے سامنے پیش نہ چلی اور مجبوراً شادی ہو گئی لیکن ظفر اللہ نے عملی طور پر اس لڑکی کو کبھی بیوی کے طور پر قبول نہ کیا۔ نہ اس سے میل جول رکھا۔ حتیٰ کہ 1926ء میں والد کا انتقال ہو گیا۔ والد کے انتقال کے بعد سر ظفر اللہ نے اپنی مرضی سے ایک ماڈرن، تعلیم یافتہ، اپنی پسند کی تیز طرار لڑکی ’’بدر‘‘ سے شادی کر لی، جس سے ان کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی، جس کا نام امت الحئی ہے۔ اس کے بعد کوئی اور اولاد نہ ہوئی۔ سر ظفر اللہ کو نرینہ اولاد کی بہت خواہش تھی۔ مگر نصیب میں بیٹا نہ تھا اور یہ نعمت قادیانی پیر اور برطانوی سامراج بھی دینے میں ناکام رہا۔ اس ماڈرن بیوی نے ویسے بھی سر ظفر اللہ کووہ تگنی کاناچ نچایا کہ چودھری صاحب اس سے زیادہ تر دور ہی رہنے لگے۔ اور اپنے اوراپنے پیرو مرشد مرزا کی فیملی میں دلچسپی لینے لگے۔ مرزا بشیر الدین محمود، مرزا غلام احمد کا بیٹا جو کہ 1914ء میں قادیانیوں کا خلیفہ دوم بن چکا تھا۔ یہ سر ظفر اللہ کا قریباً ہم عمر تھا۔ مرزا بشیر الدین محمود بہت ہوشیار چالاک، تیز فہم آدمی تھا۔ اس نے شروع سے ہی ظفر اللہ سے یاری گانٹھ لی۔ ظفر اللہ کا بھی گھریلو چپقلش کے باعث اپنے گھر دل نہ لگتا تھا۔ اس لیے اپنے پیرکے لڑکے لڑکیوں میں دلچسپی لینے لگ گئے۔ یہ دلچسپی اتنی بڑھی کہ بیرون ملک سے پاکستان واپسی پر اپنے گھر کی بجائے مرزا محمود کے گھر ہی قیام کرتے۔ ادھر ان کی بیوی (والدہ امت الحئی) ان کی عدم تو جہی سے شاکی رہنے لگی۔بعد میں اس نے ظفر اللہ سے علیحدگی اختیار کر لی اور مشہور قادیانی سرمایہ دار شاہنواز سے شادی کر لی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ظفر اللہ کابشریٰ ربانی، ایک فلسطینی سے شادی کا سلسلہ بن رہا تھا جو ان کی بیوی پر گراں گزرا ہو۔ جب سابقہ بیوی نے شاہنواز سے شادی کر لی تو ظفر اللہ نے جو شاید اسی موقع کے منتظر تھے، فوراً فلسطینی خوبرور دو شیزہ بشریٰ ربانی سے شادی رچالی۔ ظفر اللہ اس وقت ستر برس کے پیٹے میں تھے اور بشریٰ ربانی نو عمر دو شیزہ تھی۔ اس شادی پر مرزا غلام احمد کے صاحبزادے مرزا بشیر احمد نے قادیانی آرگن ’’الفضل‘‘ میں مضمون شائع کیا جس میں اس شادی پر بڑی خوشی کا اظہار کیا اور سب قادیانیوں سے بیٹے کی پیدائش کے لیے دعا کی درخواست کی اورخود بھی دعا کی کہ اللہ پاک چودھری صاحب (سر ظفر اللہ) کو بیٹا عنایت کرے۔

مگر وائے افسوس کسی قادیانی کی دعا اس بارے میں شرف قبولیت نہ پا سکی۔ ہو سکتا ہے اس طویل مہلت سے فائدہ اٹھا کرچودھری صاحب قادیانیت سے تائب ہو جاتے تو اللہ تعالیٰ انہیں اولاد نرینہ سے بھی نوازدیتا۔ یہ تیسری شادی بھی بے ثمر رہی۔ شنید ہے کہ بشریٰ ربانی کا نوجوان نا کام منگیتر اس سے ملنے کسی نہ کسی بہانے آتا رہتاتھا  اور اس نے چودھری صاحب پر پستول بھی اٹھایاتھا۔ بالآخر اس قسم کے نا گفتنی حالات کی بنا پریہ شادی بھی نا کام ہوئی اور علیحدگی ہو گئی۔ اور ظفر اللہ بھری دنیا میں اکیلے بے یارو مدد گار رہ گئے۔ ان کی بیٹی بھی اپنی ماں کا ساتھ دیتی تھی۔ اس لیے چودھری صاحب پر بیٹی کا گھر بھی بندتھا۔ مرزا محمود جو اُن کاپیر اور یار تھا، کئی سال سے مفلوج پڑا تھا۔ دو بھائی تکلیف دہ اموات سے مر چکے تھے اور چھوٹا بھائی اسد اللہ خان بھی فالج سے معذور تھا۔ کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ کہنے کو ان دونوں ہالینڈ میں ہیگ کی انٹرنیشنل کورٹ میں جج تھے بظاہر بڑی شان تھی لیکن اندرونی حالت یہ رہی کہ قریباً پندرہ سال ہالینڈ میں قادیانی مشن کے ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتے رہے اور اس کے بعد 1973ء سے 1983ء تک انگلینڈ کے قادیانی مشن کے ساتھ ایک کوٹھڑی میں گزارے۔ کوئی عزیز پر سان حال نہ تھا۔

ہم نے اوپر جو کچھ لکھا، وہ بلا ثبوت نہیں بلکہ اکثر باتیں قادیانیوں کی اپنی کتابوں، رسالوں، اخباروں میں ہی درج ہیں۔مثال کے طور پرقادیانی ماہنامہ ’’خالد‘‘ کے ظفر اللہ خاں نمبر میں مرزا محمود کی سب سے چھوٹی بیوی ’’مہر آپا‘‘ چودھری ظفر اللہ سے اپنے تعلقات کا اظہاریوں کرتی ہیں:

’’اپنی کوٹھی تعمیر ہونے سے قبل جب کبھی آپ حضرت فضل عمر ( مراد مرزا محمود) سے ملاقات کے لیے آتے اور مرکز سلسلہ میں قیام فرماتے تو اپنے جس گھر میں حضور (مرزا محمود) کی باری ہوتی (مرزا محمودکی کئی بیویاں تھیں۔ ہر بیوی کے گھر باری باری جاتے ) آپ بھی اسی گھر کے مہمان شمار ہوتے۔ جب کبھی مجھے آپ کی میزبانی کا موقع ملتا تو میں آپ کی بیماری کے پیش نظر مناسب غذا تیار کرواتی۔ ایک دفعہ آپ نے حضور سے کہا کہ مہر آپا میرے کھانے کا بہت تکلف سے اہتمام کرتی ہیں…… دوران سفر وینس اٹلی پہنچے تو وہاں نہ کوئی قلی تھا نہ مزدور۔ حضرت چودھری صاحب نے تمام سامان اپنے کندھوں پر اٹھا اٹھا کر کار سے گنڈو لے تک پہنچایا اور مسکراتے ہوئے فرمایا دیکھا میں نہ کہتا تھا کہ اس قدر سامان نہ لے جائیں۔ خیربیبیوںکو پتہ تھا ظفر اللہ ساتھ ہے۔ خود ہی سامان اٹھاتا پھرے گا۔ وہ (چودھری ظفر اللہ) اپنے حبیب حضر ت فضل عمر (مرزا محمود) کے عشق و محبت میں اپنی ذات سے بے نیاز ہو کر سب کام کر رہے تھے‘‘۔

قادیانی ’’خلیفہ‘‘ مرزا محمود نے ظفر اللہ کے ساتھ کیا کہ اسے گھر بار سے متنفر کر کے اپنی ذات کے لیے اس سے نوکر چاکر کی طرح کام لیا اور ذاتی فائدے کے لیے اپنی فیملی کی مستورات تک کو اس کے سپرد کر دیا اور ظفر اللہ کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ حاصل کیا اور اس سے قادیانی مذہب کے لیے عالمی مبلغ کا کام لیا اور دنیا میں کئی جگہ ظفر اللہ کے ذاتی خرچ سے مشن ہائوس تعمیر کروائے۔ اس سے ساری دولت وصیت نامے کے ذریعے قادیانی مشن (یعنی مرزا قادیانی کی آل اولاد جس کی وارث ہے) کے نام لکھوا لی۔

’’مہر آپا، جو مرزا محمود کی ساتویں بیوی تھیں، مرزا محمود کی عمر 60 سال کے قریب تھی اور مہر آپا قریباً 19 برس کی تھی۔ جب یہ شادی ہوئی، سرظفر اللہ اپنی سروس کے دوران زیادہ تر یورپ میں ہی رہے۔ اپنی بیویوں، بیٹی، گھر بار کی تو کبھی خبر نہ لی لیکن مرزا محمود اور ان کی فیملی کو خوب سیر و سیاحت کراتے۔ ’’مہر آپا‘‘ میں خصوصی دلچسپی لیتے تھے۔ محترمہ اپنے مضمون میں آگے چل کر تحریر کرتی ہیں:’’اس احساس کے تحت کہ میں گوشت کی کوئی چیز نہیں کھا رہی، چودھری صاحب نے حضور سے کہا (حضور سے مراد مرزا محمود ہے) حضور! میں حسب سابق شرع کی پابندی ملحوظ رکھتے ہوئے مہر آپا کے لیے ایک خاص ڈش کا انتظام کرتا ہوں۔ ان کو وہ ضرور پسند آ جائے گی۔ یہ کہہ کر آپ نے اس ڈش کا آرڈر دیا۔ جب وہ ڈش تیار ہو گئی تو چودھری صاحب نے حضور سے کہا کہ یہ خاص طور پر مہر آپا کے لیے بنوائی گئی ہے۔ ان سے کہیں اب تو کھا لیں۔ ڈش دیکھنے میں خوش نظر تھی مگر میرا دل کسی طور راضی نہ ہوا اور میں نے ڈش چپکے سے چھپا دی…

… اسی طرح آسٹریا میں ایک دفعہ کھانے کا وقت ہوا تو ہم ہوٹل میں آ گئے۔ چودھری صاحب نے میرے لیے بھی انڈوں کا سوپ منگوایا۔ انھیں معلوم نہ تھا کہ مجھے یہ اچھا نہیں لگتا۔ جب چودھری صاحب کو پتہ چلا کہ میں وہ نہیں پی رہی تو آپ نے ’’زرمی خورم‘‘ کہتے ہوئے پی لیا۔

ایک بار وینس میں چودھری صاحب نے ہم مستورات کے لیے کھلے سمندر کی سیر کا انتظام کیا… صاحبزادی امت الجمیل، صاحبزادی امت المتین، (مرزا محمود کی صاحبزادیاں جو کہ دوسری بیویوں سے ہیں) اور میں سیر کے لیے گئے۔ سیر کے دوران چودھری صاحب بہت سے اہم تاریخی مقامات دکھاتے چلے گئے اور ساتھ ساتھ ان کا تاریخی پس منظر بھی بتاتے رہے۔‘‘

مرزا محمود نے بھی ظفر اللہ کو خوب پھانسے رکھا۔ ایک دفعہ مرزا محمود نے میموں کا ڈانس دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تو چودھری صاحب انھیں ایسی جگہ لے گئے جہاں میموں کا عریاں ڈانس ہو رہا تھا۔مرزا محمود کا اپنا بیان ہے:

’’جب میں ولایت گیا تو مجھے خصوصیت سے خیال تھا کہ یورپین سوسائٹی کا عیب والا حصہ بھی دیکھوں۔ مگر قیام انگلستان کے دوران میں مجھے اس کا موقعہ نہ ملا۔ واپسی پر جب ہم فرانس آئے تو میں نے چودھری ظفر اللہ خان صاحب سے جو میرے ساتھ تھے، کہا کہ مجھے کوئی ایسی جگہ دکھائیں۔ جہاں یورپین سوسائٹی عریانی سے نظر آ سکے۔ وہ بھی فرانس سے واقف تو نہ تھے مگر مجھے ایک اوپیرا میں لے گئے جس کا نام مجھے یاد نہیں رہا۔ اوپیرا سینما کو کہتے ہیں۔ چودھری صاحب نے بتایا کہ یہ اعلیٰ سوسائٹی کی جگہ ہے جسے دیکھ کر آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان لوگوں کی کیا حالت ہے۔ میری نظر چونکہ کمزور ہے۔ اس لیے دور کی چیز اچھی طرح نہیں دیکھ سکتا۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے جو دیکھا تو ایسا معلوم ہوا کہ سینکڑوں عورتیں بیٹھی ہیں۔ میں نے چودھری صاحب سے کہا، کیا یہ ننگی ہیں۔ انھوں نے بتایا یہ ننگی نہیں بلکہ کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ مگر باوجود اس کے، وہ ننگی معلوم ہوتی تھیں۔ تو یہ بھی ایک لباس ہے۔ اسی طرح ان لوگوں کے شام کی دعوتوں کے گائون ہوتے ہیں۔ نام تو اس کا بھی لباس ہے۔ مگر اس میں سے جسم کا ہر حصہ بالکل ننگا نظر آتا ہے۔‘‘                         (روزنامہ اخبار الفضل قادیان دارالامان مورخہ 24 جنوری 1934ئ)

طوالت کے خوف سے صرف مختصر اقتباسات ہی درج کیے ہیں۔ قادیانیوں کے اپنے لٹریچر سے ثابت ہے کہ چودھری صاحب اپنے پیر اور ان کے کنبہ میں اس قدر مست تھے کہ انھیں اپنے گھر بار تک کا ہوش نہ تھا۔ اپنی 93 سالہ عمر میں 90 سال تک انھوں نے گھر کا رخ نہ کیا تاآنکہ صحت نے بالکل جواب دے دیا اور موت سر پر منڈلاتی نظر آنے لگی تو 1983ء میں بیٹی کے پاس لاہور آ گئے۔ اسی بیٹی کے گھر ان کی سابقہ بیوی بھی رہتی تھی۔ ساری عمر بیٹی کے گھر نہ ٹھہرتے تھے کہ ماں کو وہاں سے نکالو۔ مگر بیٹی اس کے لیے تیار نہ ہوئی۔ آخر مرن کنارے ذلیل ہو کر اسی بیٹی اور سابقہ بیوی کے سامنے اسی کے گھر رہ کر چل بسے۔

بعض اور بھیمشہور نامور مسلمان ہستیاں قادیانی تحریک سے متاثر ہوئیں لیکن اپنی خداداد ذہانت اور بصیرت کے باعث وہ جلد ہی قادیانیت کے جال سے نکل گئے۔ اہل اسلام کو اور خاص کر ہندوستان کے نامور مسلمان لیڈروں کو سرظفر اللہ سے بھی امید تھی کہ وہ جلد یا بدیر دوبارہ اہل اسلام میں واپس شامل ہو جائیں گے مگر جیسا کہ اوپر کے حالات سے معلوم ہوتا ہے، مرزا محمود نے ان کے اردگرد ایسا تابا بانا بُن دیا تھا کہ وہ اس میں سے نکل نہ سکے۔ مرزا محمود کو بھی دھڑکا تھا کہ سرظفر اللہ ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ اس لیے وہ چودھری صاحب پر ہر طرح کی نوازشات کرتاتھا۔ مثلاً یہ کہ بڑے بڑے پاکستان کے شہر مثلاً لاہور اور کراچی کی امارت ہمیشہ کے لیے چودھری صاحب کے خاندان کے نام کر دی۔ یعنی لاہور اور کراچی کی قادیانی جماعتوں کا سربراہ (جسے امیر جماعت کہا جاتا ہے) ہمیشہ چودھری ظفر اللہ کے خاندان سے ہو۔ چنانچہ لاہور کا پہلا امیر جماعت چودھری ظفر اللہ کا چھوٹا بھائی چودھری اسد اللہ رہا۔ جب وہ مفلوج ہو گیا تب سے چودھری ظفر اللہ کا بھتیجا اور داماد حمید نصراللہ لاہور کی قادیانی جماعت کا امیر ہے۔ اسی طرح کراچی کی جماعت کا امیر سرظفر اللہ کا بھائی چودھری عبداللہ خان ساری عمر رہا۔ جب وہ بلڈ کینسر کی بیماری میں مبتلا ہو کر 1959ء میں مر گیا تو ان دنوں شیخ رحمت اللہ نائب امیر تھا۔ وہ چودھری عبداللہ کی موت کی وجہ سے امیر جماعت ہو گیا۔ اس پر چودھری خاندان نے احتجاج کیا۔ چنانچہ فوری طور پر ربوہ سے مرزا محمود نے ایک وفد، مولوی اللہ دتہ جالندھری، مولوی جلال الدین شمس اور مولوی غلام احمد فرخ (جو چوٹی کے قادیانی مربی تھے) پر مشتمل، کراچی بھیجا جس نے سمجھا بجھا کر نیز کچھ لوگوں سے الزامات لگوا کر شیخ رحمت اللہ کو امارت سے علیحدہ کیا اور اس کی جگہ چودھری ظفر اللہ کے قریبی عزیز چودھری احمد مختار کو امیر جماعت کراچی نامزد کر دیا۔ جو تب سے امیر چلا آ رہا ہے۔ یہاں یہ امر بھی خالی از دلچسپی نہ ہو گا کہ قادیانی قوانین کے مطابق کوئی امیر جماعت تین سال سے زائد نہیں رہ سکتا۔ تین سال بعد انتخابات کر کے دوسرا امیر بنانا ہوتا ہے لیکن چودھری احمد مختار 26 سال سے امیر جماعت چلا آ رہا ہے۔اسی طرح لاہور کا امیر جماعت چودھری ظفر اللہ کا بھتیجا ہے جو سالہا سال سے امیر جماعت چلا آ رہا ہے۔

سو قارئین حضرات! یہ وہ حالات تھے جن میں مست ہو کر ظفر اللہ صاحب ساری عمر اپنا گھربار، بیویاں بچی تج کر قادیانیت اور رائل مرزا فیملی کے بندۂ بے دام بنے رہے۔ کاش کہ وہ اپنی ساری صلاحیتیں اور دولتیں اور عقیدتیں اس چھوٹے سے قادیانی سازشی گروہ پر نچھاور کرنے کی بجائے آنحضرت کی عقیدت و محبت اور پوری دنیائے اسلام اور امت محمدیہ کے لیے وقف کر دیتے۔ اس طرح وہ دین و دنیا اور آخرت سب میں سرخرو ہو جاتے۔ مگر انھوں نے سمندر کی وہیل بننے کے بجائے کنوئیں کا مینڈک بننے کو ترجیح دی اور بہمہ صلاحیت و عقل و دانش گھریلو زندگی میں بھی نامرادی میسر آئی اور جس تحریک کے لیے تن من دھن حتیٰ کہ اپنا مذہب دین اسلام چھوڑ بیٹھے تھے، اس کا بھی مرنے سے پہلے حسرت ناک انجام دیکھ لیا اور موت ایسے عبرت ناک حالات میں ہوئی کہ غیر مسلم قرار پا چکے تھے اور ان کا پیرو مرشد فرار ہو کر اپنی ولی نعمت ملکہ کی آغوش میں لندن پناہ لے چکا تھا۔