Language:

ڈاکٹر عبدالسلام مختصر تعارف

شیخ سعدیؒ نے کہا تھا ’’وہ دشمن جو بظاہر دوست ہو، اس کے دانتوں کا زخم بہت گہرا ہوتا ہے۔‘‘ یہ مقولہ نوبیل انعام یافتہ سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام پر پوری طرح صادق آتا ہے جس نے دوستی کی آڑ میں پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اُسے 10 دسمبر 1979ء کو نوبیل پرائز ملا۔ قادیانی جماعت کے آرگن روزنامہ ’’الفضل‘‘ نے لکھا تھا کہ جب اُسے نوبیل انعام کی خبر ملی تو وہ فوراً اپنی عبادت گاہ میں گیا اور اپنے متعلق مرزا قادیانی کی پیش گوئی پر اظہار تشکر کیا۔ اس موقع پر مرزا قادیانی کی بعض عبارتوں کو کھینچ تان کر ڈاکٹر عبدالسلام پر چسپاں کیا گیا اور فخریہ انداز میں کہا گیا کہ یہ دنیا کا واحد موحد سائنس دان ہے جسے نوبیل پرائز ملا ہے۔ حالانکہ اسلام کی رو سے رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا منکر بڑے سے بڑا موحد بھی کافر ہوتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا منکر تھا۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی (جن سے انگریز نے اپنے سیاسی مفادات کے حصول کی خاطر نبوت کا اعلان کروایا تھا) کو اللہ کا آخری نبی مانتا تھا اور اس طرح وہ اپنے عقائد کی رو سے دنیا کے تمام مسلمانوں کو کافر اور صرف اپنی جماعت کے لوگوں کو مسلمان سمجھتا تھا۔ چونکہ قادیانیت مخبروں اور غداروں کا سیاسی گروہ ہے، لہٰذا اس کی سرپرستی کرتے ہوئے سامراج نے ان کے ایک فرد کو نوبیل پرائز دیا۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ یہ ایک رشوت ہے جو یہودیوں نے قادیانیت کو اپنے مفادات کے حصول کے لیے دی۔

ڈاکٹر عبدالسلام کو اپنی جماعت کی خدمات پر ’’فرزند احمدیت‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ وہ اپنی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر احمد کے حکم پر 1966ء سے وفات تک مجلس افتاء کا باقاعدہ ممبر رہا۔ اس کا ماموں حکیم فضل الرحمن 20 سال تک گھانا اور نائیجیریا میں قادیانیت کا مبلغ رہا۔ اس کا والد چودھری محمد حسین جنوری 1941ء میں انسپکٹر آف سکولز ملتان ڈویژن کے دفتر میں بطور ڈویژنل ہیڈکلرک تعینات ہوا۔ قادیانی جماعت کے دوسرے خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود نے اسے قادیانی جماعت ضلع ملتان کا امیر مقرر کیا، جس میں تحصیل ملتان، وہاڑی، کبیروالہ، خانیوال، میلسی، شجاع آباد اور لودھراں کی تحصیلیں شامل تھیں۔ ایک دفعہ اس نے خانیوال میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر قادیانی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مرزا قادیانی کا (نعوذ باللہ) موازنہ شروع کیا تو اجتماع میں موجود مسلمانوں میں کہرام مچ گیا اور انہوں نے اشتعال میں آکر پورا جلسہ الٹ دیا۔ چند نوجوانوں نے چودھری محمد حسین کو پکڑ کر جوتے بھی مارے۔ پولیس نے چودھری محمد حسین کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا۔ دو دن بعد ملتان میں ایک قادیانی اعلیٰ پولیس افسر کی مداخلت سے اسے رہائی ملی۔

تحریک پاکستان کا مشہور غدار خضر حیات ٹوانہ ضلع سرگودھا کا بہت بڑے جاگیردار اور یونینسٹ سیاست دان تھا۔ اس نے اپنی ریاست ’’کہلرا‘‘ میں، جہاں ہزاروں مزدور، کسان اس کی ہزاروں ایکڑ اراضی پر محنت و مشقت کرتے تھے، کبھی کوئی سکول نہ کھلنے دیا۔ اس خضر حیات ٹوانہ نے حکومت برطانیہ کو جنگ عظیم میں مدد دینے کے لیے 3 لاکھ روپے کا فنڈ اکٹھا کیا۔ مگر 1945ء میں جنگ عظیم اختتام کو پہنچ گئی جس کے بعد وہ 1946ء میں کانگریس پارلیمنٹری پارٹی کے ساتھ مخلوط وزارت کے زیر اہتمام پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا دیا گیا۔ چونکہ اس کا جمع کیا ہوا جنگی فنڈ تاحال کسی مصرف میں نہ آسکا تھا، اس لیے اس نے انگریز کی تعلیمی پالیسی کے مطابق چھوٹے زمینداروں کے بچوں کو بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیجنے کے لیے وظائف کا اجراء کیا۔ اس مقصد کے لیے کہ ڈاکٹر سلام کو بیرون ملک تعلیم کے لیے یہ وظیفہ مل جائے، اس کے والد نے سر ظفراللہ خاں قادیانی، جو ان دنوں وائسرائے کی کونسل کا ممبر تھا، کی سفارش پر ضلع گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر سے ایک سرٹیفکیٹ حاصل کرلیا کہ گورداسپور میں اس کی اراضی ہے جو اسے اس کے بھائی نے دی ہے جو اسی ضلع میں رہائش پذیر ہے۔ اس طرح دوسرے امیدواروں کے ساتھ سلام بھی وہ وظیفہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ یہ وظیفہ تین سال کی مدت کے لیے مخصوص تھا اور اس کی رقم تین سو پچھتر پائونڈ سالانہ تھی۔ اس زمانے کے ایکسچینج ریٹ کے مطابق ایک برطانوی پائونڈ تیرہ روپے کا ہوا کرتا تھا۔ سلام نے اس وظیفے کے حصول کی کوشش کے ساتھ ہی کیمبرج داخلے کی درخواست بھیج دی تھی۔ جب اس کے ساتھی سکالرز کو اگلے سال (یعنی 1947ء میں) کیمبرج میں داخلہ دینے کا وعدہ کیا گیا تو سلام کو اسی دن یعنی 3ستمبر 1946ء کو کیمبرج کی طرف سے ایک لیٹر موصول ہوا جس میں اسے اطلاع دی گئی تھی کہ سینٹ جان کالج میں اس کے لیے ایک غیر متوقع خالی جگہ موجود ہے۔ یوں سلام کا کیمبرج میں داخلہ ہوگیا۔ ڈاکٹر عبدالسلام جب برطانیہ پہنچا تو لیورپول کی بندرگاہ پر جو شخص اسے سب سے پہلے ملا، وہ سر ظفر اللہ خاں تھا۔

ڈاکٹر عبدالسلام 1948ء میں اپنی شادی کے سلسلہ میں واپس پاکستان آنا چاہتا تھا مگر نامعلوم وجوہات کی بنا پر قادیانی جماعت کے دوسرے خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود نے اسے منع کر دیا۔ 1949ء میں وہ پاکستان واپس آیا تو میاں افضل حسین جو پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ سرفضل حسین کا چھوٹا بھائی تھا، ان دنوں پبلک سروس کمیشن کا چیئرمین تھا۔ اس نے کمال مہربانی کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالسلام کے سکالرشپ میں توسیع کر دی۔ اسی سال گرمیوں میں ڈاکٹر عبدالسلام کی پہلی شادی اپنے چچا غلام حسین کی بیٹی امت الحفیظ بیگم سے ہوئی۔ شادی کے ڈیڑھ ماہ بعد وہ واپس برطانیہ چلا گیا۔

اس نے 1951ء میں دوبارہ واپس آکر گورنمنٹ کالج لاہور میں ملازمت کا آغاز کیا۔ گورنمنٹ کالج میں پروفیسری کے دور میں سلام کو کیمبرج یونیورسٹی نے لیکچرر شپ کے عہدے کی پیشکش کی تو سلام نے اسے بخوشی قبول کیا۔ لہٰذا بمطابق حکومت پنجاب کے نوٹیفکیشن نمبر6075/2 مورخہ 16 فروری 1954ء عبدالسلام کو مندرجہ ذیل شرائط پر کیمبرج میں ڈیپوٹیشن پر لیکچرر شپ کے عہدہ پر کام کرنے کی اجازت دے دی گئی۔

’’گورنر پنجاب کی جانب سے ڈاکٹر عبدالسلام ایم اے (پنجاب) بی۔ اے (کیبنٹ) پی ایچ ڈی (کیبنٹ) پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور کی خدمات بخوشی تین سال یا اس سے کم (اگر وہ جلد ہی پاکستان واپس آگئے) مدت کے لیے بحیثیت ریاضی کے سٹوکس لیکچرر (Stoekes Lecturer) یکم جنوری 1954ء سے کیمبرج یونیورسٹی کے سپرد کی جاتی ہیں۔‘‘ڈاکٹر عبدالسلام کی کیمبرج میں تقرری کی شرائط حسب ذیل ہوں گی:

سینٹ جان کالج کی فیلو شپ:  300 پائونڈ          یونیورسٹی میں بحیثیت لیکچرار تنخواہ:450 پائونڈ                     

دیگر الائونس:50 پائونڈ                               کل:800 پائونڈ

اس کے علاوہ اسے سینٹ جان کالج کی طرف سے ایک اپارٹمنٹ دیا گیا جہاں وہ اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ منتقل ہوگیا۔ یاد رہے کہ یہاں رہائش اور کھانا مفت تھا۔  جو لوگ اسے ڈاکٹر عبدالسلام کی جلاوطنی کا نام دیتے ہیں، انہیں اس حقیقت کے پیش نظر اپنے من گھڑت مفروضے پر نظر ثانی کرکے پوری قوم سے معذرت خواہ ہونا چاہیے۔

ڈاکٹر عبدالسلام کی پرزور سفارش پر ڈاکٹر عشرت حسین عثمانی (ڈاکٹر آئی ایچ عثمانی) کو صدر ایوب نے 1958ء میں اپنے دور حکومت میں ایٹمی توانائی کمیشن کا رکن بنایا اور پھر ایک سال کے اندر اندر اس کا چیئرمین بنا دیا۔ ڈاکٹر عبدالسلام نے امپیریل کالج لندن کے ریکٹرسرپیٹرک لنسٹیڈ کی ملی بھگت سے 500 کے قریب نیوکلیئر فزکس، ریاضی، صحت و طب اور حیاتیات کے طلبہ اور ماہرین کو بیرونی ممالک بالخصوص امریکہ اور برطانیہ کے تحقیقی مرکز میں حکومت کے خرچ پر اعلیٰ تحقیق و تعلیم کے لیے بھیجنے کا منصوبہ بنایا۔ ان طلبہ اور ماہرین کی اکثریت قادیانی مذہب سے تعلق رکھتی تھی۔ ڈاکٹر عبدالسلام نے ڈاکٹر عثمانی سے اس منصوبہ کو منظور کروا کر ان لوگوں کو باہر بھجوا دیا جو واپس آکر ملک کے حساس کلیدی عہدوں بالخصوص ایٹمی انرجی کمیشن میں فائز ہوگئے۔ اس کے برعکس امریکی تعلیمی اداروں کے نیوکلیئر فزکس کے شعبہ میں مسلمان بالخصوص عرب طلبہ پر پابندی ہے جو اب تک برقرار ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ 1974ء تک جب تک اس شعبہ میں قادیانیوں کے اثرات تھے، ایٹمی قوت بننے کے سلسلہ میں معمولی سا بھی کام نہیں ہوا۔ حالانکہ صدر ایوب چاہتے تھے کہ ہندوستان کے مقابلہ میں دفاعی قوت مضبوط بنائی جائے لیکن قادیانیوں نے ان کی کوششوں کو کامیاب نہ ہونے دیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بعد جب قادیانی گروپ کے اثرات ختم ہوئے تو پاکستان نے اس شعبہ میں ترقی کی۔

اسلام دشمن قوتوں کو ہمیشہ ہی سے ایسے بدقماش اور ننگ وطن آلہ کاروں کی ضرورت رہی ہے، جو ملت اسلامیہ کے حساس اور خفیہ معاملات کی مخبری کرکے ان کے ناپاک عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔ اس مقصد خبیثہ کے لیے انہیں اپنے پرانے نمک خواروں کا مکمل تعاون حاصل رہا ہے، جنہیں انہوں نے اپنے خزانہ عامرہ کا منہ کھول کر ہر قسم کی پرتعیش مراعات فراہم کیں۔ بلاشبہ ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی ایسے ہی ضمیر فروش لوگوں میں شامل تھا۔

دوسرے شعبوں کی طرح نوبیل انعام میں بھی یہودیوں کی اجارہ داری ہے۔ ان کا غرور، نخوت، اور تعصب کسی ایسے شخص کو خاطر میں نہیں لاتا، جو ان کی سازشوں اور مکروہ سرگرمیوں کا حامی اور آلہ کار نہ ہو۔ ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی، یہودیوں کے اس میرٹ پر سو فیصد پورے اترتے تھے، لہٰذا انہوں نے ایک سازش کے تحت ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبیل انعام سے نوازا اور اس کی آڑ میں اپنے خفیہ مقاصد حاصل کیے۔ڈاکٹر عبدالسلام نے مغربی طاقتوں اور اسرائیل کے اشارے پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ناکام بنانے اور تمام دوسرے محب وطن سائنس دانوں کو بے حوصلہ کرنے کے متعدد اقدامات کیے۔ پاکستان کے تمام ایٹمی راز ملک دشمن ممالک کو فراہم کیے۔ انہیں کہوٹہ ایٹمی سنٹر اور دوسرے حساس قومی معاملات کی ایک ایک خبر پہنچائی۔ دراصل وہ چاہتا تھا کہ پاکستان کبھی بھی دفاع کے معاملے میں خودکفیل نہ ہوسکے اور ہمیشہ بڑی طاقتوں کا دست نگر رہے۔

گوئبلز نے کہا تھا کہ اتنا جھوٹ بولو، اتنا جھوٹ بولو کہ اس پر سچ کا گمان ہونے لگے۔ بالکل یہی فلسفہ ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کے متعلق اپنایا گیا۔ ہمارے نام نہاد صحافیوں اور دانشوروں نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اس ’’غدار پاکستان‘‘ کو ہیرو بنا کر پیش کیا جو انتہائی بددیانتی کے زمرے میں آتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام کو ہیرو بنا کر پیش کرنے والے ان عقل کے اندھوں سے پوچھنا چاہیے کہ ڈاکٹر عبدالسلام نے مختلف ادوار میں حکومت پاکستان سے تمام تر مراعات حاصل کرنے کے باوجود اپنی پوری زندگی کی ’’تحقیق‘‘ کے نتیجے میں عالم اسلام بالخصوص پاکستان کو کیا تحفہ دیا؟ اس کی کون سی ایجاد یا دریافت ہے، جس نے ہمارا سر فخر سے بلند کیا؟ اس کا کون سا کارنامہ ہے جس سے پاکستان کو کوئی فائدہ پہنچا؟ اس کی کون سی خدمت ہے، جس سے اہل پاکستان کے مسائل میں ذرا سی بھی کمی واقع ہوئی؟ اس نے کون سا ایسا تیر مارا، جس پر اسے نوبیل انعام سے نوازا گیا؟ یہ سوالات آج تک تشنہ جوابات ہیں!

ڈاکٹر عبدالسلام مسلمانوں کو کیا سمجھتا تھا؟ اس سلسلہ میں معروف صحافی و کالم نویس جناب تنویر قیصر شاہد نے ایک دلچسپ مگر فکر انگیز واقعہ اپنی ذاتی ملاقات میں مجھے بتایا۔ یہ واقعہ انہی کی زبانی سنئے، فرماتے ہیں:’’ایک دفعہ لندن میں قیام کے دوران بی بی سی لندن کی طرف سے میں اپنے ایک دوست کے ساتھ بطور معاون، ڈاکٹر عبدالسلام کے گھر ان کا تفصیلی انٹرویو کرنے گیا۔ میرے دوست نے ڈاکٹر سلام کا خاصا طویل انٹرویو کیا اور ڈاکٹر صاحب نے بھی بڑی تفصیل کے ساتھ جوابات دیئے۔

انٹرویو کے دوران میں بالکل خاموش، پوری دلچسپی کے ساتھ سوال و جواب سنتا رہا۔ دوران انٹرویو انہوں نے ملازم کو کھانا دستر خوان پر لگانے کا حکم دیا۔ انٹرویو کے تقریباً آخر میں ڈاکٹر عبدالسلام مجھ سے مخاطب ہوئے اور کہا: ’’آپ معاون کے طور پر تشریف لائے ہیں مگر آپ نے کوئی سوال نہیں کیا۔ میری خواہش ہے کہ آپ بھی کوئی سوال کریں۔‘‘ ان کے اصرار پر میں نے بڑی عاجزی سے کہا کہ چونکہ میرا دوست آپ سے بڑا جامع انٹرویو کر رہا ہے اور میں اس میں کوئی تشنگی محسوس نہیں کر رہا، ویسے بھی میں آپ کی شخصیت اور آپ کے کام کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ میں نے آپ کے متعلق خاصا پڑھا بھی ہے۔ جھنگ سے لے کر اٹلی تک آپ کی تمام سرگرمیاں میری نظروں سے گزرتی رہی ہیں لیکن پھر بھی ایک خاص مصلحت کے تحت میں اس سلسلہ میں کوئی سوال کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ اس پر ڈاکٹر عبدالسلام فخریہ انداز میں مسکرائے اور ایک مرتبہ پھر اپنے علمی گھمنڈ اور غرور سے مجھے ’’مفتوح‘‘ سمجھتے ہوئے ’’فاتح‘‘ کے انداز میں ’’حملہ آور‘‘ ہوتے ہوئے کہا: ’’نہیں… آپ ضرور سوال کریں، مجھے بہت خوشی ہوگی۔‘‘ بالآخر ڈاکٹر صاحب کے پرزور اصرار پر میں نے انہیں کہا کہ آپ وعدہ فرمائیں کہ آپ کسی تفصیل میں گئے بغیر میرے سوال کا دو ٹوک الفاظ ’’ہاں‘‘ یا ’’نہیں‘‘ میں جواب دیں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے وعدہ فرمایا کہ ’’ٹھیک! بالکل ایسا ہی ہوگا؟‘‘ میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ چونکہ آپ کا تعلق قادیانی جماعت سے ہے، جو نہ صرف حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بحیثیت آخری نبی منکر ہے، بلکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ لوگ  مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی اور رسول مانتے ہیں۔ جبکہ مسلمان مرزا قادیانی کی نبوت کا انکار کرتے ہیں۔ آپ بتائیں کہ مدعی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی نہ ماننے پر آپ مسلمانوں کو کیا سمجھتے ہیں؟ اس پر ڈاکٹر عبدالسلام بغیر کسی توقف کے بولے کہ ’’میں ہر اس شخص کو کافر سمجھتا ہوں جو مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی نہیں مانتا۔‘‘ ڈاکٹر عبدالسلام کے اس جواب پر میں نے انہیں کہا کہ مجھے مزید کوئی سوال نہیں کرنا۔ اس موقع پر انہوں نے اخلاق سے گری ہوئی ایک عجیب حرکت کی کہ اپنے ملازم کو بلا کر دستر خوان سے کھانا اٹھوا دیا۔ پھر ڈاکٹر صاحب کو پریشان دیکھ کر ہم دونوں دوست ان سے اجازت لے کر رخصت ہوئے۔‘‘

اہل علم بخوبی جانتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالسلام ایک متعصب اور جنونی قادیانی تھا جو سائنس کی آڑ میں قادیانیت پھیلاتا رہا۔ اس نے پوری زندگی میں کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی جو اسلام اور پاکستان دشمن ممالک کے مقاصد سے متصادم ہو۔ پاکستان کے دفاع کے متعلق بھارت، اسرائیل یا امریکہ کے خلاف ایک لفظ بھی کہنا، اس کی ایمان دوستی کے منافی تھا۔