• Home
  • >
  • Articles
  • >
  • سلطنت بر طانیہ مرزا کادیانی کی نظر میں
Language:

سلطنت بر طانیہ مرزا کادیانی کی نظر میں

1857ء میں مرزا قادیانی کوئی ناسمجھ بچہ نہیں تھا بلکہ بھرپور جوان تھا اور 1857ء میں انگریز گورنمنٹ نے اپنی کامیابی کے بعد مسلمانوں سے کیا سلوک کیا؟ اس سے وہ ناواقف نہیں ہو سکتا تھا۔ خاص کر جب ہر طرف ایک ایک درخت کے ساتھ کئی کئی مسلمانوں کی لاشیں لٹکی ہوتی تھیں۔ مگر اس سب کے باوجو د سلطنت بر طانیہ مرزا قادیانی کی نظر میں کیا ہے  آئیے مرزا قادیانی  کی اپنی تحریروں سے دیکھتے ہیں 

سلطنت برطانیہ… نعمت الٰہی، نعمت عظمیٰ

(1)        ’’بالآخر یہ بات بھی ظاہر کرنا ہم اپنے نفس پر واجب سمجھتے ہیں کہ اگرچہ تمام ہندوستان پر یہ حق واجب ہے کہ بنظر ان احسانات کے جو سلطنت انگلشیہ سے اس کی حکومت اور آرام بخش حکمت کے ذریعہ سے عامہ خلائق پر وارد ہیں۔ سلطنت ممدوحہ کو خداوند تعالیٰ کی ایک نعمت سمجھیں اور مثل اور نعماء الٰہی کے، اس کا شکر بھی ادا کریں۔ لیکن پنجاب کے مسلمان بڑے ناشکر گزار ہوں گے، اگر وہ اس سلطنت کو جو ان کے حق میں خدا کی ایک عظیم الشان رحمت ہے، نعمت عظمیٰ یقین نہ کریں۔‘‘

(براہین احمدیہ جلد اوّل تا چہارم صفحہ 140 مندرجہ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 140 از مرزا قادیانی)

اسلام کو دوبارہ زندگی انگریزی سلطنت سے ملی

(2)        ’’ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ اسلام کی دوبارہ زندگی انگریزی سلطنت کے امن بخش سایہ سے پیدا ہوئی ہے۔ تم چاہو، دل میں مجھے کچھ کہو، گالیاں نکالو، یا پہلے کی طرح کافر کا فتویٰ لکھو۔ مگر میرا اصول یہی ہے کہ ایسی سلطنت سے دِل میں بغاوت کے خیالات رکھنا یا ایسے خیال جن سے بغاوت کا احتمال ہوسکے، سخت بدذاتی اور خدا تعالیٰ کا گناہ ہے۔                                       

(تریاق القلوب صفحہ 28 مندرجہ روحانی خزائن جلد 15، صفحہ 156 از مرزا قادیانی)

گورنمنٹ برطانیہ …… ابر رحمت

(3) ’’یہ بات قطعی اور فیصلہ شدہ ہے کہ گورنمنٹ برطانیہ مسلمانان ہند کی محسن ہے کیونکہ سکھوں کے زمانہ میں ہمارے دین اور دُنیا دونوں پر مصیبتیں تھیں۔ خدا تعالیٰ اس گورنمنٹ کو دُور سے ابرِ رحمت کی طرح لایا اور ان مصیبتوں سے اس گورنمنٹ کے عہدِ دولت نے ایک دم میں ہمیں چھوڑا دیا۔ پس اس گورنمنٹ کا شکر نہ کرنا بدذاتی ہے اور جو شخص ایسے احسانات دیکھ کر پھر نفاق سے زندگی بسر کرے اور سچے دل سے شکر گزار نہ ہو تو بلاشبہ کافرِ نعمت ہے۔ ہماری ایمانداری کا یہ تقاضا ہونا چاہیے کہ ہم تہ دل سے اقرار کریں کہ درحقیقت یہ گورنمنٹ ہماری محسن ہے۔ ہم اس گورنمنٹ کے قدوم میمنت لزوم سے ہزاروں بلائوں سے بچے اور ہمیں وہ آزادی ملی جس کے ذریعہ سے ہم دین اور دُنیا دونوں درست کر سکتے ہیں۔ پس اگر اب بھی ہم اس گورنمنٹ کے سچے خیر خواہ نہ ہوں تو خدا تعالیٰ کے سامنے ناشکرے ٹھہریںگے۔ یہ وہ تمام باتیں ہیں جن کو مَیں نے مختلف کتابوں میں شائع کیا اور سولہ برس تک برابر میں اس خدمت کو بجا لاتا رہا۔‘‘                                                                            (مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 460,459 طبع جدید از مرزا قادیانی)

سلطنت برطانیہ ……بارانِ رحمت

(4)        ’’یہ بات بھی ظاہر کرنا ہم اپنے نفس پر واجب سمجھتے ہیں کہ اگرچہ تمام ہندوستان پر یہ حق واجب ہے کہ بنظر اُن احسانات کے کہ جو سلطنتِ انگلشیہ سے اس کی حکومت اور آرام بخش حکمت کے ذریعہ سے عامۂ خلائق پر وارد ہیں۔ سلطنتِ ممدوحہ کو خداوند تعالیٰ کی ایک نعمت سمجھیں اور مثل اور نعماء الٰہی کے، اس کا شکر بھی ادا کریں۔ لیکن پنجاب کے مسلمان بڑے ناشکر گذار ہوں گے اگر وہ اس سلطنت کو جو ان کے حق میں خدا کی ایک عظیم الشان رحمت ہے، نعمتِ عظمیٰ یقین نہ کریں۔۔۔۔۔۔ پس فی الحقیقت یہ سلطنت ان کے لیے ایک آسمانی برکت کا حکم رکھتی ہیں جس کے آنے سے سب تکلیفیں ان کی دور ہوئیں۔۔۔ پس حقیقت میں خداوند کریم و رحیم نے اس سلطنت کو مسلمانوں کے لیے ایک بارانِ رحمت بھیجا ہے جس سے پودہ اسلام کا پھر اس ملک پنجاب میں سرسبز ہوتا جاتا ہے اور جس کے فوائد کا اقرار حقیقت میں خدا کے احسانوں کااقرار ہے۔‘‘                                   

            (براہین احمدیہ حصہ اول تا چہارم صفحہ140، مندرجہ روحانی خزائن جلد 1، صفحہ 140 از مرزا قادیانی)

انگریزی سلطنت، ایک رحمت اور برکت

(5)        ’’سو یہی انگریز ہیں جن کو لوگ کافر کہتے ہیں جو تمہیں ان خونخوار دشمنوں سے بچاتے ہیں اور ان کی تلوار کے خوف سے تم قتل کیے جانے سے بچے ہوئے ہو۔ ذرا کسی اور سلطنت کے زیر سایہ رہ کر دیکھ لو کہ تم سے کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ سو انگریزی سلطنت تمہارے لیے ایک رحمت ہے، تمہارے لیے ا یک برکت ہے اور خدا کی طرف سے تمہاری وہ سپر ہے۔ پس تم دل وجان سے اس سپر کی قدرکرو۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 709 طبع جدید، از مرزا قادیانی)

 گورنمنٹ برطانیہ ہمارا اصول ہے

(6)        ’’ہم دنیا میں فروتنی کے ساتھ زندگی بسر کرنے آئے ہیں اور بنی نوع کی ہمدردی اور اس گورنمنٹ کی خیر خواہی جس کے ہم ماتحت ہیں یعنی گورنمنٹ برطانیہ ہمارا اصول ہے۔ ہم ہرگز کسی مفسدہ اور نقص امن کو پسند نہیں کرتے اور اپنی گورنمنٹ انگریزی کی ہر ایک وقت میں مدد کرنے کے لیے طیار ہیں۔اور خدا تعالیٰ کا شکرکرتے ہیں جس نے ایسی گورنمنٹ کے زیر سایہ ہمیں رکھا ہے۔‘‘                                                                     (کتاب البریہ صفحہ17، مندرجہ روحانی خزائن جلد13صفحہ18 از مرزا قادیانی)

سلطنت برطانیہ نے حیوانیت سے نکال کر انسانی کمالات پر پہنچایا

(7)        ’’اور ہم خدا کا شکر کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں سلطنت برطانیہ کا عہد بخشا اور اس کے ذریعہ سے بڑی بڑی مہربانیاں اور فضل ہم پر کیے۔ ہم نے اس سلطنت کے آنے سے انواع اقسام کی نعمتیں پائیں۔ ہماری قوم نے علم اور تہذیب سیکھی اور بہائم کی زندگی سے نکلنا انہیں نصیب ہوا اور حیوانی جذبوں سے نکل کر انسانی کمالات پر پہنچنا میسر آیا۔ ‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 542  طبع جدید از مرزا قادیانی)

گورنمنٹ انگریزی کا زمانہ… روحانی اور جسمانی برکات کا مجموعہ

(8)        ’’بعد اس کے گورنمنٹ انگریزی کا زمانہ آیا۔ یہ زمانہ نہایت پُرامن ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اگر ہم خالصہ قوم کی عملداری کے دنوں کو امن عامہ اور آسائش کے لحاظ سے انگریزی عملداری کی راتوں سے بھی برابر قرار دیں تو یہ بھی ایک ظلم اور خلاف واقعہ ہوگا۔ یہ زمانہ روحانی اور جسمانی برکات کا مجموعہ ہے۔ اور آنے والی برکتیں اس کی ابتدائی بہار سے ظاہر ہیں۔‘‘                    

(لیکچر لاہور صفحہ 30 مندرجہ روحانی خزائن، جلد 20 صفحہ 176، از مرزا قادیانی)

برٹش گورنمنٹ میں آسمان، زمین سے نزدیک ہوگیا

(9)        ’’گورنمنٹ کو یہ فخر ہونا چاہئے کہ اس ملک میں اور اس کے زمانہ بادشاہت میں خدا اپنے بعض بندوں سے وہ تعلق پیدا کر رہا ہے کہ جو قصوں اور کہانیوں کے طور پر کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔ اس ملک پر یہ رحمت ہے کہ آسمان زمین سے نزدیک ہوگیا ہے۔ ورنہ دُوسرے ملکوں میں اس کی نظیر نہیں!‘‘                                        (سراج منیر صفحہ 21 مندرجہ روحانی خزائن جلد 12، صفحہ 23، از مرزا قادیانی)

سرکار انگریزی پھل دار درخت کی طرح ہے

(10)      ’’سرکار انگریزی اس درخت کی طرح ہے جو پھلوں سے لدا ہوا ہو۔ اور ہر ایک شخص جو میوہ چینی کے قواعد کی رعایت سے اس درخت کی طرف ہاتھ لمبا کرتا ہے تو کوئی نہ کوئی پھل اس کے ہاتھ میں آ جاتا ہے۔ ہماری بہت سی مرادیں ہیں جن کا مرجع اور مدار خدائے تعالیٰ نے اس گورنمنٹ کو بنا دیا ہے۔ اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ رفتہ رفتہ وہ ساری مرادیں  اس مہربان گورنمنٹ سے ہمیں حاصل ہوں۔‘‘                                                                                                 (مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ548 طبع جدید از مرزا قادیانی)

 

انگریز کا زمانہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ سے بڑھ کر

(11)      ’’اس مبارک گورنمنٹ کے زمانہ کو اگر اس امن کے زمانہ سے مشابہت دیں جو حضرت نوح علیہ السلام کے وقت میں تھا تو یہ زمانہ بلاوجہ اس کا مثیل غالب ہوگا۔‘‘

(ازالہ اوہام صفحہ 58 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 131 از مرزا قادیانی)

راحت کا جام

(12)      ’’بیشک ہم اس سلطنت برطانیہ کے زیر سایہ پوری آزادی سے زندگی بسر کر رہے ہیں اور اس حکومت کی مہربانی سے ہمارے اموال، ہماری جانیں، ہماری ملت اور ہماری عزتیں ظالموں کے ہاتھوں سے محفوظ ہیں۔ پس ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کی مہربانی کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ اس نے ہم کو اپنی عمدہ خصال کی وجہ سے راحت کا جام پلایا ہے، تہ دل سے اس کا شکریہ ادا کریں اور ہم پر یہ بھی واجب ہے کہ ہم اس کے دشمنوں (مسلمانوں) کو تلواروں کی چمک دکھائیں اور اس کے خلاف نہیں بلکہ اس کی خاطر اپنے غصہ کی آگ کو بھڑکائیں۔‘‘    

    (مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 417 طبع جدید از مرزا قادیانی)

سلطنت برطانیہ… امن و راحت کی پناہ گاہ

(13)      ’’جعل لی السلطنۃ البرطانیۃ ربوۃ امنٍ و راحۃ و مستقرًا حسنا فلحمد لِلّٰہ۔‘‘

ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ نے میرے لیے سلطنت برطانیہ کو ربوہ، امن و راحت کی پناہ گاہ بنایا ہے اور یہ ٹھہرنے کی اچھی جگہ ہے اور اس پر خدا کی حمد و ثنا ہے۔‘‘

(حقیقت الوحی، ضمیمہ، الاستفتاء صفحہ 46، مندرجہ روحانی خزائن، جلد 22 صفحہ 668، از مرزا قادیانی)

 

            غور کیجیے کہ چودہ سو سال سے جس مسیح کی آمد کی خوش خبری مسلمانوں کے کانوں میں گونج رہی ہے، معاذ اللہ، کیا وہ ایسا ہی مسیح ہے کہ جو صلیب پرستوں اور اسلامی حکومتوں کے دشمنوں کا مداح و ثنا خواں ہو، ان کے شکر اور دعا میں مع اپنی تمام امت کے رطب اللسان ہو، اسلامی حکومتوں کے زوال پر چراغاں کرنے والا ہو، اور مسلمانوں کے قاتلوں کو مبارک باد کے تار دینے والا ہو۔ مسیح کا کام تو کفر کی حکومت کو ختم کرنا ہے، نہ کہ دشمنان اسلام کی تائید اور حمایت کرنا اور ان کی بقا اور ترقی کے لیے دل و جان سے دعا کرنا اور ان کے سایہ کو سایہ رحمت سمجھنا۔